ایف آئی اے کے 20 اہلکار انسانی اسمگلنگ میں ملوث، تحقیقات کا آغاز

پاکستان سے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے ساتھ کشتیوں کے حادثات میں پاکستانیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان واقعات کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کئی اہلکار انسانی اسمگلروں کے ساتھ تعاون میں ملوث پائے گئے ہیں۔

مراکش اور یونان کے قریب حالیہ کشتی حادثات میں متعدد پاکستانیوں کی ہلاکت کے بعد 20 ایف آئی اے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

الزام ہے کہ ان اہلکاروں نے پاکستانیوں کے کاغذات کلیئر کر کے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق، تحقیقات کے دائرے میں فیصل آباد ایئرپورٹ پر تعینات آٹھ اہلکار، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کے چھ اور لاہور ایئرپورٹ کے چھ اہلکار شامل ہیں۔

ایف آئی اے کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے لیے موریطانیہ ترکی اور لیبیا کے بعد تیسرا اور نیا راستہ بن گیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروپ مارچ 2024 میں موریطانیہ میں کیمپ لگا چکے تھے، جہاں جون سے یورپ کی جانب لوگوں کی نقل و حمل شروع ہوئی۔

ایف آئی اے کے مطابق، لوگوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان سے سینیگال پہنچایا جاتا تھا، پھر زمینی راستے سے موریطانیہ لے جایا جاتا، جہاں سے انہیں کشتیوں کے ذریعے مراکش پہنچایا جاتا تھا۔ ان کا حتمی ہدف اسپین کا ایک جزیرہ تھا۔

یاد رہے کہ جمعرات کے روز موریطانیہ سے اسپین جانے والی تارکین وطن کی ایک کشتی اٹلانٹک اوشین میں ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں 50 سے زائد غیر قانونی تارکین وطن جاں بحق ہو گئے، جن میں 44 پاکستانی بھی شامل تھے۔

Comments are closed.