فلسطین سے متعلق اپنے بیانات سے بین الاقوامی سطح پر تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ فاکس نیوز کو دیے گئے ایک تازہ انٹرویو میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ تباہ حال غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرنے کے ان کے مجوزہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو وہاں واپس جانے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
ٹرمپ کا مؤقف: “فلسطینیوں کو بہتر رہائش ملے گی”
پیر کے روز شائع ہونے والے انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ہوگی تو انہوں نے سختی سے انکار کرتے ہوئے کہا، “نہیں، وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ انہیں بہت بہتر رہائش ملے گی۔” ان کے اس بیان نے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ عالمی برادری میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔
“غزہ کے باہر مستقل جگہ” کا متنازع منصوبہ
ٹرمپ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوسرے لفظوں میں فلسطینیوں کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر کسی دوسری جگہ پر مستقل رہائش کے حق میں ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ یہ جگہ کہاں ہوگی اور اس منصوبے کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
بین الاقوامی ردِعمل
ٹرمپ کے اس بیان پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ فلسطینی حکام، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے ان کے اس مؤقف کو فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف غیر عملی بلکہ عالمی قوانین اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کے منافی ہے۔
ماضی میں بھی متنازع بیانات
یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ نے غزہ اور فلسطینیوں کے حوالے سے ایسا متنازع بیان دیا ہو۔ اس سے قبل بھی وہ کہہ چکے ہیں کہ غزہ کی پٹی پر “قبضہ” کیا جا سکتا ہے یا اسے “خریدا” جا سکتا ہے۔ ان بیانات پر انہیں دنیا بھر میں شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کیا یہ نیا منصوبہ حقیقت بن سکے گا؟
ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ یہ نظریہ عملی طور پر کتنا قابلِ عمل ہے، اس پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس قسم کی تجاویز نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہیں بلکہ خطے میں مزید کشیدگی کو بھی جنم دے سکتی ہیں۔
Comments are closed.