اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ اور دیگر وکلا نے دلائل دیے، جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ “سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔”
اعتزاز احسن کا مؤقف: وکیل کے دلائل سے اختلاف
سماعت کے آغاز پر وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عزیر بھنڈاری کی جگہ آج وہ دلائل دیں گے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ وکلا خود طے کریں کہ کون پہلے دلائل دے گا، اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
معروف وکیل اور سینئر سیاستدان اعتزاز احسن نے عدالت میں کہا کہ سلمان اکرم راجہ بھی ان کے وکیل ہیں، تاہم وہ ان کے گزشتہ روز کے دلائل سے متفق نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے مکمل اتفاق ہے، جبکہ سلمان اکرم راجہ نے کل اس سے اختلاف کیا تھا، جو ان کی ہدایت کے خلاف تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا مؤقف
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سلمان اکرم راجہ کے اعتراضات شاید آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے حوالے سے تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے وضاحت کی کہ انہوں نے جسٹس منیب اختر کے صرف ایک پیراگراف سے اختلاف کیا تھا اور وہ اپنے دلائل پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ان کے بیان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور عالمی قوانین میں سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت سے متعلق ان کے جواب کو سرخیوں میں نمایاں کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں حساس کیس کی سماعت جاری
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے اور قانونی ماہرین کے مطابق یہ مقدمہ ملک میں آئندہ کے عدالتی اور فوجی قانونی ڈھانچے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
Comments are closed.