ایران کی ایٹمی پیش رفت ناقابل قبول، مگر فوجی مداخلت فی الحال زیر غور نہیں: ٹرمپ

موریس ٹاؤن (نیو جرسی): امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اعلان کیا ہے کہ کسی بھی حتمی اقدام سے قبل دو ہفتے کی مہلت دی گئی ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ “کیا کچھ لوگ عقل کی طرف لوٹتے ہیں یا نہیں”۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیو جرسی کے شہر موریس ٹاؤن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ ممکنہ طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی حمایت کر سکتے ہیں، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ دونوں فریقین کو حملے روکنے پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے، اور ان خفیہ معلومات کی تردید کو انہوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور پر امریکی انٹیلیجنس کی سابق سربراہ ٹولسی گیبارڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ مؤقف غلط ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے کوئی واضح شواہد موجود نہیں۔

صدر ٹرمپ نے یورپی سفارتی کوششوں پر بھی مایوسی کا اظہار کیا، خاص طور پر جنیوا میں ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے، جہاں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی نمائندوں سے ملاقات کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ “ایران ہم سے بات کرنا چاہتا ہے، نہ کہ یورپ سے”۔ ان کے مطابق، مذاکرات جاری ہیں اور وہ نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیلی ردِعمل کو “موثر” قرار دیا اور کہا کہ ایران کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بعض اوقات امن کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہوتا ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ زمینی فوج ایران بھیجنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب مشرق وسطیٰ میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے، اور عالمی برادری ایران اور اسرائیل کے درمیان کسی بڑے تصادم کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔

Comments are closed.