مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو آج چھ برس مکمل ہوچکے ہیں۔ان چھ برسوں میں اہل کشمیر پر قیامت ڈھادی گئی، تاریخ کا بدترین جبر کشمیری عوام پر مسلط کیا گیا۔جبکہ آرٹیکل 370 اور 35اے کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کو عملا ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد بھارت نے نہ صرف کشمیری عوام پر فوجی محاصرہ مسلط کیا بلکہ یہاں آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹا اور کشمیری عوام کی سانسوں پر پہرے بھی بٹھائے۔بھارت نے 5 اگست کے بعد کشمیری عوام کے تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں کو سلب کر لیا ہے۔حتی کہ مذہبی معاملات میں بھی کھلم کھلا مداخلت کی جاتی ہے۔ کئی برسوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نماز جمعہ اور عیدیں کے بڑے اجتماعات پر پابندیاں عائد ہیں ،جبکہ تاریخی جامع مسجد سرینگر کے منبر و محراب کئی کئی ہفتوں تک خاموش ر ہتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرکی پوری آزادی پسند قیادت کے علاوہ مذہبی رہنما بھی بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کیے گئے ہیں۔
کشمیری عوام کی جائیداد و املاک،باغات اور رہائشی مکانوں پر قبضہ اب ایک عام روایت بن چکی ہے۔ 05 اگست2019 کے ماروائے آئین اقدام کے پیچھے جہاں کئی عوامل کار فرما ہیں،وہیں BJP اورRSS کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبل از اسلام ہندو تہذیب کا از سر نو احیا سرفہرست ہے ۔مودی کی جانب سے 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اقدامات کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیرکی مسلم شناخت چھیننا ہے۔جس کیلئے بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے اور مسلم اکثریتی کردار مٹانا مودی اور اس کے قبیل کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔اسی لیے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں غیر مقامی افراد یعنی ہندوئوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔جس کیلئے05 اگست2019 کے بعد لاکھوں ڈومیسائل کا اجرا عمل میں لایا جاچکا ہے ۔اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب کشمیری عوام کی مسلم شناخت کوہندو اقلیت میں بدلا جائے تو حق خود ارادیت کی جدوجہد از خود کمزور پڑجائے گی۔البتہ اپنی منفرد شناخت کا تحفظ کشمیری مسلمانوں کیلئے ایک ناگزیر حقیقت ہے۔کشمیری عوام5 اگست 2019 کی غیر آئینی تبدیلیوں کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی آج کے دن تک کیا ہے۔بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے 5 اگست 2019 میں ماورائے آئین اقدامات کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔جس کا اظہار اب بھارت نواز جماعتیں اور ان کے رہنما کھلے بندوں کرتے ہیں ۔حالانکہ مودی اور اس کے حواری یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ آرٹیکل 370اور35اے کے خاتمے نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کو یکسر تبدیل کیا ہے۔اب تو بھارت کے دانشور حلقے اور سابق بھارتی آفیسران اور بیوروکریٹ کھل کر اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکا ۔اگر ایک جانب بھارت کا ظلم وجبر رکنے کا نام نہیں لیتا مگر وہیں اہل کشمیر تمام تر جبر واسبتداد کے باوجود نہ بھارت کے سامنے سرنگوں ہونے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی تاریخ کی لازوال اور عظیم قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی پر کوئی سمجھوتہ کررہے ہیں،یہی اہل کشمیر اور تحریک آزادی کا مثبت اور جاندار پہلو ہے۔ 5اگست مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدید تاریخ کا سب سے المناک، دردناک اور تباہ کن دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ہندوتوا طاقتوں نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندھتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیری عوام کے تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشی، مذہبی اور دیگر بنیادی حقوق کو پس پشت ڈالا ہے۔5 اگست2019 ہی وہ دن تھا جب ہندوتوا مودی حکومت اپنی تمام تر فوجی طاقت، وسائل اور اداروں کیساتھ مل کر مقبوضہ جموں و کشمیر پر حملہ آور ہوئی اور کشمیری عوام کے تمام بنیادی حقوق غصب کیے۔بھارتی حکومت، بھارتی پارلیمنٹ، اس کی 10 لاکھ ا فواج، درجنوں تحقیقاتی ادارے، خفیہ ایجنسیاں اور یہاں تک کہ اس کی مسلم مخالف اور ہندتوا نواز عدلیہ نے کشمیری عوام کو فتح کرنے اور اسے ہندو راشٹر کا حصہ بنانے کیلئے شروع دن سے سر جوڑ لیے تھے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بدترین ڈکیتی، سب سے بڑی دہشت گردی اور کشمیری عوام کے تشخص، ثقافت اور بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔اس غیر جمہوری،غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے تباہ کن اثرات اب آہستہ آہستہ مرتب ہورہے ہیں۔ جن میں مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نو آبادیاتی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کا ہر انچ مسلح بھارتی فوجیوں سے بھرا پڑا ہے اور گزشتہ چھ برسوں سے مسلسل محاصرے میں ہے۔ 05 اگست 2019 سے قابض بھارتی فوجیوں نے 1100 کشمیریوں کا قتل عام کرنے کے علاوہ2500 زخمی اور 28,516 سے زائد گرفتار کیے اور وہ مختلف من گھڑت مقدمات کے تحت بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔ رواں برس22 اپریل کو بیسرن پہلگام میں 26 بھارتی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد 3000 کے قریب کشمیری نوجوان گرفتار کرکے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ اور UAPA کے تحت جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کیا گیا ہے،جبکہ 23 اپریل کو جنوبی کشمیر کے اسلام آباد اور پلوامہ میں 13 سے زائد رہائشی مکانات صرف مشتبہ افراد کی ملکیت ہونے کے نام پر انہیں بارود سے اڑا دیا گیا۔ اس کے علاوہ بدنام زمانہ بھارتی NIA اور ریاستی SIA جیسی خوفناک بھارتی ایجنسیوں نے چھاپوں کے نام پر خوف ودہشت پھیلائی ہے۔سینکڑوں آزادی پسند رہنماوں اور کارکنوں کی جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں۔مختلف بہانوں سے کشمیری عوام کی املاک کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جس کا بنیادی مقصد کشمیری عوام کو ڈرانا اور انہیں غاصبانہ بھارتی قبضہ تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ وہی استعماری پالیسی ہے جسے اسرائیل فلسطین میں استعمال کر کے انہیں ان کی پشتنی زمینوں سے محروم کر کے اپنی ہی سرزمین پر بے گھر اور ہجرت پر مجبور کر رہا ہے۔ مودی حکومت بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں صہیونی اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مودی حکومت کے 5 اگست 2019میں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ ہزاروں کشمیری اپنے کاروبار اور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ 05اگست 2019 کے بعد مقبوضہ خطے میں قابض بھارتی انتظامیہ کشمیری مسلمان سرکاری ملازمین کو کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے ملازمتوں سے برطرف کررہی ہے ۔ اب تک سینکڑوں کشمیری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جاچکا ہے اور ان کی جگہ غیر ریاستی ہندو ملازمین کو بھر تی کیا جا رہا ہے۔ اس صہیونی پالیسی کا مقصد کشمیری عوام سے سب کچھ چھیننا اور انہیں اپنی ہی سرزمین پر محکوم ومجبور اور تما م وسائل و حقوق سے محروم کرنا ہے۔بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیری عوام کی آواز کچلنے کیلئے ہر وحشیانہ حربہ استعمال کرنے کے باوجود کشمیری عوام کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اہل کشمیر کا جذبہ آزادی ہر گزرتے دن کیساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ بھارتی ظالمانہ رویے نے کشمیری عوام کے اس یقین کو مزید پختہ ترکیا ہے کہ بھارت ان کا بدترین دشمن اور ان کی زندگی، عزت، مستقبل، مذہبی شناخت، ثقافت بھارتی تسلط میں محفوظ نہیں ہے۔ غیر مسلح لیکن بہادر اور پرعزم کشمیری عوام نے اپنے عزم، استقامت اور ناقابل تسخیر جذبے کے ذریعے دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت کو الجھائے رکھا ہے۔ کشمیری عوام نے ہٹلر سے متاثرہ آر ایس ایس کے خواب چکنا چور کیے ہیں اور پھر ایکبارثابت کیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں، انہیں قتل تو کیا جا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ ان کے حوصلے ہمالیہ سے بھی بلند ہیں، بھارت نے 10 لاکھ سے زائد افواج کی بنیاد پر اہل کشمیر کو یرغمال بنایا ہوا ہے لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی تمام فوجیں بھی تعینات کریں تو بھی شرمناک اور ذلت آمیز شکست اس کا مقدر ہے۔
کشمیری عوام کا بے مثال اور ناقابل شکست عزم بھارت کیلئے نوشتہ دیوار ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیری عوام کی جائز تحریک آزادی کو کچل نہیں سکتی۔ یہ بھارت کے اپنے مفاد میں بھی ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بے جا ضد سے باز آجائے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے۔بھارت بہت تماشے کرکے دیکھ چکا ہے،کبھی G20 کے نام پر تو کبھی پورے بھارت سے ہندوئوں کو یہاں لاکر امر ناتھ یاترا کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتا ہے مگر بھارت کے اہل دانش جانتے ہیں کہ ان اقدامات سے غربت و افلاس میں ڈوبی ہوئی بھارتی عوام کا پیٹ نہیں بھراجاسکتا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دے چکی ہیں۔کیونکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی جنگی جرائم عالمی برادری کیلئے چیلنج ہیں۔عالمی طاقتوں کو اپنے دوغلے پن سے باز آکربھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگی جرائم کے ارتکاب سے روکنا چاہیے جبکہ اقوام متحدہ کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت پر اسی طرح پابندیاں عائد کرنی چاہئیں،جس طرح کمزور بالخصوص مسلمان ممالک کے خلاف عائد کی جاتی ہیں۔
عالمی برادری پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے اور متنازعہ خطے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے پر مجبور کرے۔ واضح رہے کہ 5 اگست 2019 میں مودی کی زیر قیادت ہندوتوا بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے۔کنٹرول لائن کی دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی جانب سے آج یوم سیاہ منانا دنیا کیساتھ ساتھ بھارت کیلئے پیغام ہے کہ کشمیری عوام مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی،ناجائز اور غاصبانہ قبضے کو قبول اور تسلیم نہیں کرتے ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پورے علاقائی امن وسلامتی اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہیں لہذا بھارتی منصوبوں اور عزائم کو روکنے کیلئے میڈیا کیساتھ وابستہ افراد کو بھرپور کردار ادا کرکے پوری دنیا کے سامنے بھارت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔میڈیا جوکہ ایک اہم محاذ اور ہتھیارہے ایمانداری اور مستقل مزاجی سے اس محاذ پربھارتی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ بھارت نے05 اگست2019 کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں میڈیا کی آزادی نہ صرف سلب کی بلکہ متعدد صحافیوں کو سچ لکھنے کی پاداش میں گرفتار بھی کیا ہے۔ایسے میں پاکستان و آزاد کشمیر اور پوری دنیا میں میڈیا کیساتھ وابستہ افراد پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی موجودہ سنگین صورتحال کو اس کے صحیح اور تاریخی تناظر میں اجاگر کریں۔بھارت نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سے متعلق من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا ہے بلکہ اس کا اس حوالے سے بیانیہ بھی ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس کے مقابلے میں کشمیری عوام کی عظیم اور لازوال قربانیاں ہیں اور ان قربانیوں سے عالمی برادری کو روشناس کرانا ضروری ہے،جو بحیثیت مجموعی ہرکشمیری پر فرض اور قرض ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کئی دہائیوں سے ظلم وجبر کی داستانیں رقم کی ہیں، تحریک آزادی کشمیر میں 1989 سے لیکر اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی جانین قربان کرچکے ہیں جبکہ 1947 سے کل ملا کر آج تک سوا پانچ لاکھ کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مرتبہ شہادت پر فائز ہوچکے ہیں،اس مقدس خون کی حفاظت اور اس کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے،جو ہر حال میں نبھائی جانی چاہیے۔
Comments are closed.