پشاور ہائیکورٹ کا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے اپوزیشن لیڈرز کی تقرری روکنے کا حکم

 پشاور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے اپوزیشن لیڈرز کی تقرری عارضی طور پر روک دی اور عمر ایوب اور شبلی فراز کے خلاف مزید کارروائی سے بھی الیکشن کمیشن کو روک دیا۔ یہ فیصلہ دو رکنی بینچ، جسٹس ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال نے الیکشن کمیشن کی جانب سے دونوں رہنماؤں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سنایا۔

درخواست کا پس منظر
سماعت کے دوران بیرسٹر گوہر علی خان نے مؤقف اپنایا کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ 5 اگست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی قرار دے دی گئی، جو کہ غیر قانونی اقدام ہے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 63(1)(h) کے تحت نااہلی کا فیصلہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں، بلکہ اس کے لیے مقررہ آئینی طریقہ کار ضروری ہے۔

دلائل اور قانونی نکات
وکیل نے وضاحت دی کہ رولز آف بزنس کے تحت اپوزیشن لیڈر کا انتخاب ایک واضح طریقہ کار سے ہوتا ہے اور 60 دن گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن کسی رکن کو نااہل نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ سیکشن 213 کے تحت سپیکر کا ریفرنس بھیجنا ضروری ہے، ورنہ نااہلی غیر مؤثر اور غیر قانونی سمجھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات پر درج مقدمات کو بنیاد بنا کر کارروائی کرنا غلط ہے اور اس میں الیکشن کمیشن نے قانونی تشریح میں غلطی کی ہے۔

موازنہ اور مثالیں
بیرسٹر گوہر نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن سید یوسف رضا گیلانی کے کیس کا حوالہ دے رہا ہے، جو اس کیس سے بالکل مختلف ہے۔ گیلانی کیس کے حقائق اور قانونی نکات اس صورتحال پر لاگو نہیں ہوتے۔

عدالت کا حکم
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو 15 اگست تک جواب طلب کرتے ہوئے ہدایت دی کہ اس دوران عمر ایوب اور شبلی فراز کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے اور اپوزیشن لیڈرز کی تقرری کے عمل کو مؤخر کیا جائے۔

Comments are closed.