اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں متنازع بستی کے منصوبے کو فوری طور پر ترک کرے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف علاقے کو تقسیم کرے گا بلکہ مشرقی القدس کو بھی مغربی کنارے سے الگ کر دے گا، جو دو ریاستی حل کے امکانات کو ختم کر دے گا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کا بیان
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوچاریک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس سے قبضے کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مجوزہ منصوبہ خطے میں قیام امن کے لیے جاری کوششوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر خزانہ کا اعلان
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل سموٹریچ نے ایک پرانے اور متنازع منصوبے پر عملدرآمد شروع کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بستی، جسے “ای ون” منصوبہ کہا جاتا ہے، مغربی کنارے کو تقسیم کر کے مشرقی القدس سے علیحدہ کر دے گی۔ سموٹریچ کے دفتر نے اس اقدام کو فلسطینی ریاست کے قیام کے خیال کو “دفن” کرنے کے مترادف قرار دیا۔
سموٹریچ کا موقف
سموٹریچ، جو خود بھی ایک آباد کار ہیں، نے معالیہ ادومیم میں مجوزہ مقام پر کھڑے ہو کر کہا کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس منصوبے کی بحالی کی حمایت کی تھی، تاہم دونوں کی جانب سے کوئی باضابطہ تصدیق سامنے نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کسی بھی عالمی کوشش کا جواب عملی اقدامات، نئے گھروں کی تعمیر اور رہائشی محلوں کے قیام سے دیا جائے گا۔
پس منظر
واضح رہے کہ اسرائیل نے 2012 میں معالیہ ادومیم میں تعمیراتی منصوبے کو روک دیا تھا۔ 2020 میں یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا گیا مگر امریکہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں کی مخالفت کے بعد اسے ایک بار پھر روک دیا گیا۔ عالمی برادری اس منصوبے کو فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی ممکنہ امن معاہدے کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔
Comments are closed.