فلسطینی محکمہ صحت نے بتایا ہے کہ گذشتہ ہفتے کے اختتام پر غزہ میں بھوک اور غذائی قلت کے باعث مزید آٹھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ اس طرح بھوک سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 281 ہو گئی ہے، جن میں 114 بچے شامل ہیں۔
انسانی المیہ اور عالمی برادری سے اپیل
محکمہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کا انسانی المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ محاصرے اور خوراک و ادویات کی کمی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ادارے نے عالمی برادری اور امدادی تنظیموں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ ہزاروں جانوں کو بچایا جا سکے۔
خوفناک زمینی حالات
غزہ سے موصولہ مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہزاروں افراد خوراک کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ بچے محدود رسد کے لیے ایک دوسرے سے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تاکہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ صورتحال خطے میں قحط کی سنگینی کو واضح کر رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی وارننگ
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ترجمان ریک بیبیرکورن نے حالیہ دنوں میں کہا کہ غزہ میں غذائی قلت اب سرکاری طور پر مشرق وسطیٰ میں پہلے تصدیق شدہ قحط کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ان کے مطابق صرف جولائی میں ہی 12 ہزار سے زائد بچوں میں شدید غذائی قلت کی تشخیص کی گئی، جو سال کے آغاز کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔
بچوں میں غذائی قلت کے خطرناک اثرات
محکمے کی رپورٹ کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے، جو سب سے مہلک نوعیت کی کمی ہے اور اس کے اثرات فوری بھی ہیں اور طویل المدتی بھی۔ اقوام متحدہ کی خوراک کی نگرانی کرنے والی ایجنسی نے پہلی بار شمالی غزہ کے حالات کو باضابطہ طور پر قحط کے زمرے میں شامل کیا ہے۔
Comments are closed.