پنجاب سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہونے لگی ہے۔ پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے نے آئندہ 48 گھنٹوں میں راوی، چناب اور ستلج میں اونچے سے انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی پیش گوئی کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں، جبکہ ضلعی انتظامیہ، ریسکیو ادارے اور فوج متاثرہ علاقوں میں ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔
بڑے شہروں میں سیلاب کا خطرہ
پی ڈی ایم اے نے لاہور، راولپنڈی اور گوجرانوالہ ڈویژن سمیت متعدد شہروں میں شہری سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ نچلے علاقوں میں پہلے ہی پانی جمع ہونا شروع ہو چکا ہے جبکہ مزید بارشوں کی صورت میں حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
متاثرین کی بڑے پیمانے پر منتقلی
این ڈی ایم اے کے مطابق بہاولنگر سے 89 ہزار 868 افراد، قصور سے 14 ہزار 140، اوکاڑہ سے 2 ہزار جبکہ بہاولپور، وہاڑی اور پاکپتن سے بھی سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ سیلابی الرٹ کے بعد 40 ہزار افراد پہلے ہی خود محفوظ علاقوں کی طرف منتقل ہو گئے تھے۔
دریاؤں کی خطرناک صورتحال
دریائے ستلج: گنڈا سنگھ والا پر پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 95 ہزار کیوسک سے تجاوز کر گیا۔ ہیڈ سلیمانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جبکہ بہاولنگر اور بہاولپور کے متعدد دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ احمد پور شرقیہ میں زمیندارہ بند ٹوٹنے سے پانی ایم 5 موٹر وے تک پہنچ گیا ہے۔
دریائے راوی: جسڑ کے مقام پر 90 ہزار کیوسک پانی کے بہاؤ سے درمیانے درجے کا سیلاب، جبکہ شاہدرہ پر نچلے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا۔ آج رات مزید 60 سے 70 ہزار کیوسک پانی شاہدرہ سے گزرنے کا امکان ہے۔
دریائے چناب: خانکی میں پانی کی آمد 91 ہزار اور اخراج 84 ہزار کیوسک ہے۔ ہیڈ مرالہ پر اونچے درجے کا سیلاب آ گیا ہے جہاں 2 لاکھ 98 ہزار کیوسک کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا۔ بھارت کی جانب سے مزید 3 لاکھ کیوسک پانی چھوڑے جانے کا خدشہ ہے جس کے باعث نقل مکانی کے لیے مساجد میں اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
دریائے سندھ: جناح بیراج پر پانی کی سطح میں 30 ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا ہے۔ کوٹری اور سکھر بیراج پر بھی درمیانے درجے کا سیلاب جاری ہے جبکہ تربیلا، کالا باغ، چشمہ اور گڈو میں نچلے درجے کا سیلاب موجود ہے۔
درجنوں دیہات زیر آب، زرعی اراضی متاثر
سیلابی پانی سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین ڈوب گئی ہے۔ کپاس، مکئی اور دھان کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بورے والا، منچن آباد، عارف والا اور چنیوٹ کے متعدد دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ کئی مقامات پر بند ٹوٹنے سے پانی بستیوں میں داخل ہو گیا اور مکانات زیر آب آ گئے ہیں۔
حکومت اور فوج کا ریلیف آپریشن
انتظامیہ نے رینجرز، فوج اور پولیس کی مدد حاصل کر لی ہے۔ عملے کی تمام چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں اور ریلیف کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں۔ صرف چنیوٹ میں 8 فلڈ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں ادویات اور سانپ کے کاٹنے کے علاج کے لیے دوائیں فراہم کر دی گئی ہیں۔ کشتیوں کے ذریعے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
اموات اور تباہی کی مجموعی صورتحال
این ڈی ایم اے کے مطابق رواں برس 26 جون سے شروع ہونے والے مون سون کے دوران ملک بھر میں سیلاب، بادل پھٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں اب تک 750 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہیں جبکہ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
مزید بارشوں کا خدشہ
این ڈی ایم اے نے 23 سے 30 اگست تک مزید شدید بارشوں، پہاڑی تودے گرنے اور نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، جس کے باعث متاثرہ علاقوں میں ہائی الرٹ جاری ہے۔
Comments are closed.