پاکستان تحریک انصاف کے بانی و سابق وزیراعظم عمران خان کی بہنیں چیف جسٹس پاکستان کو ان کا تحریری خط دینے سپریم کورٹ پہنچیں۔ علیمہ خان کے مطابق یہ خط مختلف مقدمات اور عدالتی نظام کے حوالے سے تھا۔ تاہم سپریم کورٹ پولیس نے انہیں چیف جسٹس کے چیمبر کی طرف جانے سے روک دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ رجسٹرار آفس کی اجازت کے بغیر وہاں جانا ممکن نہیں۔
خط چیف جسٹس کے چیمبر تک نہ پہنچ سکا
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ علیمہ خان بطور سائلہ چیف جسٹس کو خط دینا چاہتی ہیں لیکن پولیس حکام نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ بعدازاں سردار لطیف کھوسہ یہ خط قائم مقام رجسٹرار آفس میں جمع کرا آئے۔
خط میں عمران خان کے الزامات اور مؤقف
خط میں عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ ان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر انصاف کے دروازے بند ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 772 دنوں سے قیدِ تنہائی میں ہیں جہاں ایک 9×11 کا کمرہ ان کے لیے پنجرے کی مانند بنا دیا گیا ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف 300 سے زائد سیاسی مقدمات قائم کیے گئے ہیں جو ملکی تاریخ میں مثال نہیں رکھتے۔
انہوں نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ڈاکٹر تک رسائی نہیں دی جا رہی، نہ علاج کی سہولت دی جا رہی ہے اور نہ ہی کتب اور ملاقات کا حق۔ عمران خان کے مطابق خواتین قیدیوں کو ضمانت میں رعایت دینا قانون کا حصہ ہے لیکن بشریٰ بی بی کو یہ حق بھی نہیں دیا جا رہا۔
اہل خانہ سے ملاقاتوں پر پابندی کا شکوہ
خط میں کہا گیا کہ عمران خان کو اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کا موقع نہیں دیا جاتا اور نہ ہی بیٹوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان کے بقول یہ قید نہیں بلکہ سوچا سمجھا نفسیاتی تشدد ہے تاکہ عوام کا حوصلہ توڑا جا سکے۔
کارکنان کی گرفتاریوں اور سیاسی مقدمات کا ذکر
خط میں مزید کہا گیا کہ ہزاروں کارکنان اور حامی اب بھی جیلوں میں قید ہیں جبکہ بھانجے حسن نیازی کو فوجی حکام نے حراست میں اذیت دینے کے بعد 10 سال قید کی سزا سنائی۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ بہنوں اور بھانجوں پر بھی ناحق مقدمات قائم ہیں۔
انتخابات اور آئینی ترامیم پر اعتراضات
عمران خان نے خط میں کہا کہ تحریک انصاف نے 8 فروری 2024 کے انتخابات جیتے لیکن عوامی مینڈیٹ راتوں رات چرا لیا گیا۔ ان کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم انتخابی ڈکیتی کو جائز بنانے کے لیے استعمال ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ کیسز سمیت بشریٰ بی بی کے مقدمات سماعت کے بغیر التوا کا شکار ہیں، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کو فوری طور پر اہم اپیلوں پر سماعت کی ہدایت دی جائے۔
عدلیہ سے انصاف کی اپیل
عمران خان نے کہا کہ جب قانون کی حکمرانی دفن ہو جائے تو قومیں اندرونی زوال کا شکار ہوتی ہیں۔ انصاف ذوالفقار علی بھٹو کیس کی طرح 44 سال بعد نہیں بلکہ وقت پر دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ انہیں بیٹوں سے فون پر بات کرنے کا حق دیا جائے اور بشریٰ بی بی کو فوری طبی سہولت فراہم کی جائے۔
سپریم کورٹ کو عوام کی آخری امید قرار دیا
خط کے اختتام پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کو انصاف کی آخری پناہ گاہ سمجھتے ہیں اور عدلیہ کی خودمختاری بحال ہونا وقت کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.