نیتن یاہو نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کو “دہشت گردی کا انعام” قرار دے دیا

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دہشت گردی کے لیے ایک بڑا انعام ہے اور ان کا موقف ہے کہ “کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی”۔ نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت مقبوضہ مغربی کنارے (یہودا و سامعہ) میں بستیوں کی توسیع کرے گی اور اس سلسلے میں امریکہ واپسی کے بعد مزید اعلان متوقع ہے۔

نیتن یاہو کا ردعمل اور حکومت کی حکمتِ عملی

نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ایک اور واضح پیغام بھیج رہے ہیں: ایسا نہیں ہوگا — کوئی فلسطینی ریاست نہیں بننے دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کا جامع ردعمل ان کی امریکہ آمد اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد منظرِ عام پر آئے گا۔ اسی بیان کے ساتھ انہوں نے مقبوضہ علاقے میں بستیوں کی توسیع کے ارادے کا اعادہ کیا، جو خطے کے تناؤ میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

وزارتِ خارجہ اور سرکاری بیانات

اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ برطانوی تسلیم اس کے نزدیک “حماس کے لیے انعام” ہے اور اس تسلیم کو 7 اکتوبر کے واقعہ کے براہِ راست نتیجہ کے طور پر قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ وزارت نے مزید کہا کہ دوسرے ممالک کی جانب سے اس قسم کے اعلانات خطے میں عدم استحکام بڑھائیں گے اور تنازع کے پرامن حل کے امکانات کو کم کریں گے۔ وزارت نے واضح کیا کہ اسرائیل ایسے کسی بھی متن یا اقدام کو قبول نہیں کرے گا جو اسے “ناقابلِِ دفاع سرحدیں” قبول کرنے پر مجبور کرے۔

انتقامی نعرے اور سخت مطالبات

اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے کہا کہ تینوں ملکوں کا اقدام “قاتلوں کے لیے انعام” ہے اور اس کا فوری جواب درکار ہے۔ انہوں نے فوراً مغربی کنارے پر خودمختاری نافذ کرنے اور فلسطینی اتھارٹی کو مکمل طور پر کچلنے کا مطالبہ کیا۔ اسی نوعیت کے بیانات میں وزیرِ خزانہ سموٹرچ نے بھی کہا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک کے “ہمیں طے کرنے” کے دن ختم ہو گئے اور کہا کہ جواب یہودا و سامعہ (مقبوضہ مغربی کنارہ) پر خودمختاری لاگو کر کے دیا جائے گا۔

دیگر وزرا اور سفارتی ردِعمل

وزیرِ توانائی ایلی کوہن نے تسلیم کرنے والے ممالک کے فیصلے کو دہشت گردی کی حمایت قرار دیا اور کہا کہ یہ حماس کو 7 اکتوبر کی ہولناکیوں کے لیے انعام ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینون نے ایک پیغام میں زور دیا کہ کسی بھی ملک کا اعلان اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا کہ پہلے یرغمالیوں کو واپس لانا اور حماس کو شکست دینا ضروری ہے۔

ممکنہ نتائج اور بین الاقوامی مضمرات

ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے بستیوں کی توسیع کے اقدامات یا مغربی کنارے پر خودمختاری کا نفاذ علاقائی کشیدگی میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے بین الاقوامی سطح پر ردِعمل، سفارتی کشمکش اور ممکنہ طور پر مزید اقتصادی یا سیاسی پابندیوں کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، فلسطینی قیادت کی جانب سے ان تسلیمات کو سیاسی فائدہ قرار دینے اور اقوامِ عالم سے مزید حمایت طلب کرنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔

نتیجہ

برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے فوری بعد اسرائیل کے اعلیٰ حکومتی حلقوں کی سخت اور جارحانہ بیانات نے مشرقِ وسطیٰ کی پیچیدہ سفارتی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں خطے میں امن و امان اور سفارتی روابط پر پڑنے والے اثرات قابلِ توجہ رہیں گے، خاص طور پر جب اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے میں مزید اقدامات کی دھمکی دے دی ہے۔

Comments are closed.