پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، گندم ضائع، گاؤں اجڑ گئے، متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار

پنجاب بھر میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ ملتان میں کروڑوں روپے مالیت کی گندم سیلابی پانی کی نذر ہو گئی جبکہ اوچ شریف میں ایک بیوہ خاتون اپنے چھ بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہو گئی۔ اوچ شریف کی بستی کھوکھراں میں فضیلہ نامی خاتون کا شوہر مویشیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرتے ہوئے ریلے میں ڈوب گیا۔ نہ صرف مویشی اور گھر کا سامان پانی میں بہہ گیا بلکہ کھانے پینے کا کوئی سامان بھی باقی نہ رہا، جس سے متاثرہ خاندان فاقوں پر مجبور ہے۔

پاکپتن میں دریا برد گاؤں

پاکپتن میں دریائے ستلج کے کٹاؤ سے گاؤں باقر مکمل طور پر دریا برد ہو گیا۔ کٹاؤ روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں، اگرچہ ہیوی مشینری کے ذریعے زمینی کٹاؤ پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔ متاثرہ گاؤں کے لوگ نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔

پاسکو کی غفلت اور گندم کا نقصان

علی پور اور سیت پور میں پاسکو حکام کی مبینہ غفلت کے باعث کروڑوں روپے مالیت کی گندم تباہ ہو گئی۔ سیت پور میں پاسکو کے دو بڑے مراکز سیلابی پانی کی لپیٹ میں آ گئے، جہاں گندم کی ہزاروں بوریاں خراب ہو گئیں۔ حالانکہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے سیلاب کی پیشگی وارننگ جاری کی گئی تھی مگر حفاظتی اقدامات نہ کیے جا سکے۔

سندھ میں دریاؤں کی صورتحال

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق گڈو بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا، تاہم پانی کا بہاؤ کم ہو کر 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پر آ گیا ہے۔ سکھر بیراج پر بھی صورتحال معمول پر ہے، مگر کوٹری بیراج پر پانی کی آمد مسلسل بڑھ رہی ہے اور بہاؤ 3 لاکھ 76 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا ہے۔

ڈیمز کی صورتحال

تربیلا ڈیم کے بعد منگلا ڈیم بھی بھرنے کے قریب ہے۔ ڈیم 98 فیصد تک بھر چکا ہے اور صرف 2 فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر مزید بارشیں ہوئیں تو منگلا ڈیم میں اضافی پانی کے اخراج کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔

سندھ میں متاثرہ علاقے

نوڈیرو کے گاؤں مٹھو کھڑو کو بھی دریائے سندھ کے سیلابی پانی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گھروں میں پانی داخل ہونے سے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ نہ کشتیوں کا انتظام کیا گیا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی کیمپ لگایا گیا ہے، جس سے متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

Comments are closed.