اسلامی نظریاتی کونسل نے انجینئر محمد علی مرزا کے بیانات کو توہینِ قرآن و رسالت قرار دے دیا

اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے 243ویں اجلاس میں مبلغ انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف درج مقدمے پر غور کے بعد کہا ہے کہ ان کے کئی بیانات میں ایسے جملے شامل ہیں جو نہ صرف توہینِ قرآن بلکہ توہینِ رسالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ کونسل نے واضح کیا کہ کفر یا توہین آمیز الفاظ محض کسی شرعی مقصد، جیسے شہادت، تعلیم، یا باطل کی تردید کے لیے بیان کیے جا سکتے ہیں، بصورت دیگر یہ سخت گناہ اور سزا کے مستحق عمل ہے۔

متنازعہ بیان اور قرآنی آیت کی تحریف
کونسل نے خاص طور پر ایک ویڈیو کلپ کے حوالے سے کہا کہ مرزا نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 5 کا غلط مفہوم پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ “قرآن مجھے اجازت دے رہا ہے کہ میں اس کی عورت کے ساتھ شادی کر سکتا ہوں جو میرے نبی کو دجال سمجھتی ہے۔” کونسل نے واضح کیا کہ یہ الفاظ قرآن میں کہیں موجود نہیں اور یہ بیان نہ صرف قرآن پر اتہام بلکہ معنوی تحریف بھی ہے، جو توہینِ رسالت کو بھی لازم کرتا ہے۔ اس بنا پر کونسل نے سفارش کی کہ مقدمے میں توہینِ قرآن کی دفعات بھی شامل کی جائیں۔

یک طرفہ مواد پر تحفظات
کونسل نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) کے مراسلے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق ایجنسی نے صرف ملزم کے حق میں پیش کیے گئے فتاویٰ اور مواد کونسل کو مہیا کیے جبکہ مدعی کے دلائل و شواہد شامل نہیں کیے گئے۔ کونسل نے کہا کہ کسی بھی تفتیشی ادارے کو یک طرفہ مواد پیش نہیں کرنا چاہیے۔

عیسائی برادری سے وضاحت طلب
کونسل نے قرار دیا کہ مرزا کے بیان سے پاکستان کی مسیحی برادری کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے برادری سے تحریری وضاحت طلب کی جائے گی کہ آیا ان کی مذہبی کتابوں یا اجتماعی عقائد میں ایسی بات موجود ہے یا نہیں۔ اجلاس کے دوران معروف مسیحی رہنما فادر جے ایم چنن کا وائس میسج بھی سنایا گیا، جس میں انہوں نے سختی سے اس بیان کی تردید کی اور کہا کہ ایسا کوئی عقیدہ مسیحیت میں موجود نہیں۔

ابتدائی فیصلہ، تفصیلی رائے بعد میں
کونسل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مرزا محمد علی مرزا کے یہ بیانات “فساد فی الارض” کو پھیلانے کا سبب ہیں اور ان پر سخت تعزیری کارروائی ہونی چاہیے۔ تاہم مسیحی برادری کی تحریری رائے کے بعد ہی حتمی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔

Comments are closed.