اسپین کی پارلیمان کا تاریخی فیصلہ؛ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی پر مکمل پابندی

میڈرڈ: اسپین کی پارلیمان نے اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ یہ تاریخی قانون وزیراعظم پیڈرو سانچیز کی جانب سے پیش کیا گیا، جس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی فراہمی کو روکنا ہے۔

ووٹنگ کے نتائج اور سیاسی تقسیم
اس بل کے حق میں 178 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 169 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ اسپین کی پارلیمان کے کل 350 ارکان ہیں، جن میں بائیں بازو کی جماعت پورڈموس (Podemos) نے بھی اس بل کی حمایت کی، تاہم اس نے پہلے حکومتی اقدامات کو “ناکافی” قرار دیتے ہوئے مزید سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا تھا۔

حکومت کا مؤقف
اسپین کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ اس نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی دو سال پہلے ہی معطل کر دی تھی جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تھی، تاہم اب اس فیصلے کو باقاعدہ قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مزید سخت اقدامات کریں گے اور اسی تسلسل میں یہ قانون سازی عمل میں لائی گئی۔

پابندی کی تفصیلات
نئے قانون کے تحت اسرائیل کو کسی بھی قسم کے دفاعی آلات، ٹیکنالوجی، یا فوجی ساز و سامان کی برآمد مکمل طور پر ممنوع ہوگی جو جنگ میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیلی جنگی طیارے اسپین میں ایندھن بھی نہیں بھر سکیں گے، اگر وہ کسی ممکنہ فوجی کارروائی میں شامل ہوں۔

بین الاقوامی تناظر اور اسرائیل کا ردعمل
مسودہ قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ اور مغربی کنارے دنیا کے بدترین متاثرہ علاقوں میں شمار ہو چکے ہیں، جہاں انسانی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اسپین کے اس فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 2024 میں اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا جب اسپین نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔

سیاسی پس منظر
پارلیمان میں اس بل پر ووٹنگ منگل کو ہونی تھی، مگر ایک دن تاخیر سے عمل میں لائی گئی تاکہ اسے براہ راست غزہ کی موجودہ جنگ سے منسلک نہ کیا جائے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے یورپ میں اسرائیل مخالف جذبات کو نئی قوت ملی ہے اور اسپین خطے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک نمایاں آواز بن کر ابھرا ہے۔

Comments are closed.