اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان نے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو زوردار انداز میں مسترد کر دیا۔ پاکستانی سفارتکار آصف خان نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مودی سرکار کے “گھناؤنے چہرے” کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت خطے میں دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششوں میں ملوث ہے۔ ان کے مطابق بھارت کالعدم بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ جیسے گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے۔
بھارت کا جھوٹا بیانیہ بے نقاب
آصف خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت ہر سال اقوام متحدہ میں جھوٹ پر مبنی وہی پرانا سکرپٹ لے کر آتا ہے تاکہ عالمی توجہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ “جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے” اور بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کرانا ہوگا۔
پاکستانی مندوب نے یاد دلایا کہ خود بھارت ہی اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا، اب وعدوں سے فرار اختیار کر رہا ہے۔
مسئلہ کشمیر اور پاکستان کا اصولی مؤقف
پاکستان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر کشمیری عوام کی پرامن اور منصفانہ جدوجہد آزادی کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ آصف خان نے کہا کہ پاکستان ہر سطح پر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔
انہوں نے بھارت کے رویے کو غیر ذمہ دارانہ اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا، ساتھ ہی کہا کہ بھارت اپنے ظلم و ستم کو چھپانے کے لیے جھوٹا مظلوم بننے کا ڈرامہ کرتا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں پر مظالم اور عالمی رپورٹس
پاکستانی مندوب نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس بھارت میں اقلیتوں، مسلمانوں، دلتوں اور سکھوں پر جاری ریاستی مظالم کو بے نقاب کر چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ سب سے بڑی گمراہ ریاست ہے جو انسانی حقوق کے نام پر دنیا کو دھوکہ دے رہی ہے۔
عالمی برادری سے اپیل
آصف خان نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی، اقلیتوں پر تشدد، اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سفارتی سطح پر بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کرتا رہے گا اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
Comments are closed.