سانحہ کارساز کے 18 سال مکمل، زخم آج بھی تازہ

اٹھارہ  اکتوبر 2007 کا سانحہ کارساز پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو آج بھی دلوں کو دہلا دیتا ہے۔ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے موقع پر ہونے والے دو دھماکوں نے خوشی کے لمحوں کو ماتم میں بدل دیا، اور 18 سال گزرنے کے باوجود اس واقعے کا غم زندہ ہے۔

بینظیر بھٹو کی تاریخی واپسی
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو طویل خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچیں تو کراچی ایئرپورٹ پر جیالوں نے ان کا فقیدالمثال استقبال کیا۔ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے باعث بینظیر بھٹو کے خصوصی ٹرک نے کارساز تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگائے۔

جشن سے ماتم تک
کارساز کے قریب پہنچتے ہی یکے بعد دیگرے دو زوردار دھماکے ہوئے جنہوں نے جشن کو قیامت صغریٰ میں بدل دیا۔ ہر طرف چیخ و پکار، دھواں اور افراتفری کا عالم تھا۔ ایمبولینسوں کے سائرن گونجنے لگے، سینکڑوں لوگ خون میں لتھڑے سڑکوں پر بکھر گئے۔

درجنوں جاں بحق، سینکڑوں زخمی
اس افسوسناک واقعے میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کئی خاندانوں کے چراغ بجھ گئے، لیکن آج تک واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جا سکا۔ تحقیقات بارہا شروع ہوئیں مگر نتیجہ صفر رہا۔

یاد شہداء اور سیاسی تسلسل
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق 18 اکتوبر کا سانحہ دراصل 27 دسمبر 2007 کے سانحہ لیاقت باغ کا تسلسل تھا۔ ہر سال اس دن جیالے کارساز یادگارِ شہداء پر جمع ہو کر اپنے ساتھیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ شہیدوں کے مشن کو جاری رکھیں گے۔

غم جو آج بھی تازہ ہے
سانحہ کارساز کو 18 سال بیت چکے ہیں مگر یہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہو سکا۔ متاثرین اور کارکن آج بھی انصاف اور جواب دہی کے منتظر ہیں۔ یہ دن پاکستان کی سیاست کی تاریخ میں ایک ایسے المیے کی یاد دلاتا ہے جو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔

Comments are closed.