بھارت کابل میں افغان طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے:خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کابل نے تصادم کا راستہ اپنایا تو پاکستان مؤثر اور بھرپور جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

 طالبان کی پشت پناہی 
وزیر دفاع خواجہ آصف نے العربیہ ٹی وی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ بھارت کابل میں افغان طالبان کی حمایت کر رہا ہے اور طالبان اس وقت بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کم شدت کی جنگ (Low-Intensity Conflict) چھیڑ رہا ہے، جس کے واضح شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔

طالبان کے ساتھ بھارت کے روابط
خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ جب طالبان کے ایک وزیر بھارت کے دورے پر تھے، اسی دوران پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر جھڑپیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کی جارحیت کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا، جس دوران ہمارے متعدد جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
وزیر دفاع کے مطابق طالبان اور بھارت کے درمیان تعلقات اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے، اور بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ 
خواجہ آصف نے انٹرویو میں کہا کہ چند ماہ قبل بھارت کے ساتھ ایک مختصر جنگی جھڑپ کے دوران بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق پاکستان نے اس لڑائی میں بھارت کے سات طیارے مار گرائے، اور اس بات کا ذکر امریکی صدر نے بھی کئی بار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “امریکی صدر نے گزشتہ روز بھی بیان دیا کہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کے سات نئے اور خوبصورت طیارے تباہ ہوئے۔”

افغان سرزمین سے دہشت گردی 
وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی گئی تو اسلام آباد خاموش نہیں بیٹھے گا۔
انہوں نے کہا کہ “ہم نے ہمیشہ امن کی خواہش رکھی، لیکن اگر کابل نے تصادم کا راستہ اپنایا تو پاکستان بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔”

آخری انتباہ
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ اگر طالبان نے اپنی لگام دہلی کے حوالے کر دی ہے تو یہ افغانستان کے لیے بڑا خطرہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ دونوں ممالک امن اور سکون سے رہیں، لیکن اگر کابل نے دشمنی کا راستہ چنا ہے تو پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

Comments are closed.