نیویارک سٹی میں تاریخ رقم ہو گئی — مسلم امیدوار ظہران ممدانی واضح اکثریت سے جیت کر شہر کے پہلے مسلمان میئر بن گئے۔ ان کی فتح امریکی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز سمجھی جا رہی ہے، جہاں تارکینِ وطن پس منظر رکھنے والا ایک نوجوان ترقی پسند رہنما عوامی مسائل کے ایجنڈے پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
نیویارک کے سیاسی منظرنامے میں انقلاب
ظہران ممدانی نے نیویارک سٹی کے میئر انتخابات میں سابق گورنر اور آزاد امیدوار اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو شکست دی۔ یہ انتخاب 2001 کے بعد سب سے زیادہ ووٹرز کی شرکت والا الیکشن ثابت ہوا، جس میں تقریباً 20 لاکھ سے زائد شہریوں نے ووٹ ڈالے۔
ٹرمپ اور ایلون مسک کی مخالفت کے باوجود کامیابی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیکنالوجی ارب پتی ایلون مسک کی مخالفت کے باوجود ظہران ممدانی نے واضح برتری حاصل کی۔ ٹرمپ کی بھرپور حمایت کے باوجود اینڈریو کومو شکست سے دوچار ہوئے، جو امریکی سیاست میں عوامی رجحان کے بدلاؤ کا مظہر ہے۔
ظہران ممدانی کا پس منظر
1991 میں یوگنڈا میں پیدا ہونے والے ظہران ممدانی کے والدین بھارتی نژاد ہیں۔ ان کی والدہ معروف فلم ساز میرا نائر ہیں، جن کی فلمیں ’مون سون ویڈنگ‘ اور ’مسیسیپی مسالا‘ عالمی سطح پر سراہا جا چکی ہیں، جبکہ والد محمود ممدانی کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
2018 میں امریکی شہریت حاصل کرنے کے بعد ممدانی نے سیاست میں عملی قدم رکھا۔ ان کی اہلیہ رما دواجی شامی ایک مشہور آرٹسٹ ہیں۔
تعلیم اور ابتدائی زندگی
ظہران ممدانی نے برونکس ہائی اسکول آف سائنس سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں مین کی بوڈوئن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اپنے تعلیمی دور میں وہ ترقی پسند نظریات سے متاثر ہوئے۔ 2015 میں انہوں نے ’ینگ الائچی‘ کے نام سے ہپ ہاپ میوزک میں قدم رکھا مگر جلد ہی موسیقی چھوڑ کر سماجی خدمت اور سیاست کی راہ اختیار کر لی۔
سیاست میں قدم اور عوامی خدمت
انہوں نے سیاسی سفر کا آغاز اس وقت کیا جب وہ ایک ریپر دوست کی مہم میں رضاکار کے طور پر شریک ہوئے۔ بعد ازاں وہ فورکلوزر سے بچاؤ کے مشیر کے طور پر کام کرتے رہے اور مالی مشکلات کا شکار گھرانوں کو مکانات کھونے سے بچانے میں مدد کی۔
2018 میں وہ کوئنز کے حلقے سے نیویارک اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جہاں انہوں نے تارکین وطن اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے بھرپور کام کیا۔
انتخابی مہم اور عوامی ایجنڈا
ممدانی کی مہم عام شہریوں کے مسائل پر مرکوز تھی۔ ان کے ایجنڈے میں سستی رہائش، مفت پبلک ٹرانسپورٹ، یونیورسل چائلڈ کیئر، اور متوسط طبقے کے لیے سہولیات شامل تھیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میئر بننے کے بعد وہ گھروں اور دفاتر کے کرائے منجمد کریں گے، پبلک ٹرانسپورٹ مفت کریں گے، اور چائلڈ کیئر کے نظام کو وسعت دیں گے۔
فلسطین سے اظہارِ یکجہتی
ظہران ممدانی فلسطینی عوام کی کھلی حمایت کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر عالمی عدالت انصاف کو مطلوب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئیں تو وہ ان کی گرفتاری یقینی بنائیں گے۔ ان کا یہ دوٹوک مؤقف مسلم اور ترقی پسند ووٹرز میں مقبولیت کا باعث بنا۔
تاریخی کامیابی کا عالمی ردعمل
دنیا بھر میں ظہران ممدانی کی کامیابی کو مسلمانوں، تارکینِ وطن اور ترقی پسند طبقات کے لیے ایک امید کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق ان کی جیت امریکی سیاست میں تنوع، برداشت، اور نئی نسل کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر کو ظاہر کرتی ہے۔
Comments are closed.