حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار

ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ حاصل کرنا ترمیمی عمل کی کامیابی کے لیے لازمی ہے، جب کہ حکومتی اتحاد کو دونوں ایوانوں میں بظاہر اکثریت حاصل ہے۔

سینیٹ میں حکومتی پوزیشن مضبوط مگر حساس

سینیٹ کے 96 رکنی ایوان میں حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے کم از کم 64 ووٹوں کی ضرورت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق حکومتی اتحاد کو اس وقت 65 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جو مطلوبہ اکثریت سے صرف ایک ووٹ زیادہ ہے۔

حکمران اتحاد میں پیپلز پارٹی 26 ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے، مسلم لیگ (ن) کے 21 ووٹ ہیں، جب کہ ایم کیو ایم اور اے این پی کے 3،3 ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔
اس کے علاوہ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور 6 آزاد ارکان بھی اتحادی بلاک میں شامل ہیں۔

سینیٹ میں اپوزیشن کی طاقت

دوسری جانب سینیٹ میں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 31 ہے۔
تحریک انصاف کے 22، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 7، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے ایک ایک سینیٹر اپوزیشن بینچوں پر موجود ہیں۔
اگر اپوزیشن متحد رہی تو حکومت کے لیے ترمیمی بل کی منظوری ایک بڑا امتحان بن سکتی ہے۔

قومی اسمبلی میں حکومتی اکثریت واضح

قومی اسمبلی کا ایوان مجموعی طور پر 336 ارکان پر مشتمل ہے، تاہم 10 نشستیں خالی ہونے کے باعث موجودہ تعداد 326 ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 224 ووٹ درکار ہیں، جبکہ حکومتی اتحاد کے پاس اس وقت 237 ارکان کی حمایت موجود ہے۔

مسلم لیگ (ن) 125 اراکین کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کے 74، ایم کیو ایم کے 22، ق لیگ کے 5 اور آئی پی پی کے 4 ارکان حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن سمیت 4 آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی حیثیت

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان کی مجموعی تعداد 89 ہے، جن میں 75 آزاد اراکین شامل ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے 10، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، بی این پی مینگل اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن اپوزیشن بینچوں پر موجود ہے۔

سیاسی منظرنامہ اور اہم مرحلہ

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کے لیے قومی اسمبلی میں ترمیم کی منظوری نسبتاً آسان ہے، تاہم سینیٹ میں معمولی اکثریت ہونے کے باعث نمبر گیم نہایت نازک ہو چکا ہے۔
ترمیمی بل کی منظوری یا ناکامی آئندہ ہفتے ملکی سیاست میں اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.