ایک فتویٰ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کا سبب بنا: طالبان حکومت

افغان طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ رحمۃ اللہ نجیب نے انکشاف کیا ہے کہ استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے جب پاکستانی وفد نے طالبان قیادت سے پاکستانی حکومت کے خلاف جنگ کو ’’حرام‘‘ قرار دینے کا فتویٰ جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ افغان طالبان نے مؤقف اختیار کیا کہ فتویٰ دینا دارالافتاء کا دینی و شرعی اختیار ہے، جو کسی حکومت کے دباؤ میں نہیں آ سکتا۔

استنبول میں پاکستان-افغانستان مذاکرات ناکام
کابل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ رحمۃ اللہ نجیب نے تصدیق کی کہ استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات اس وقت رک گئے جب پاکستانی وفد نے طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے فتویٰ دینے کا مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکومت کے خلاف لڑنا ’’حرام‘‘ ہے۔

فتویٰ پر اختلاف، مذاکرات کی ناکامی کی بڑی وجہ
رحمۃ اللہ نجیب کے مطابق افغان وفد نے واضح کیا کہ فتویٰ جاری کرنا صرف دارالافتاء کا دینی اختیار ہے اور یہ فیصلہ کسی سیاسی یا حکومتی سطح پر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’طالبان رہنما کو فتویٰ جاری کرنے کا اختیار نہیں، افغان فتویٰ کونسل شرعی اصولوں کے مطابق خود مختار فیصلے کرتی ہے اور کسی ادارے سے حکم نہیں لیتی۔‘‘

ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں مذاکرات
طالبان رہنما نے بتایا کہ ترکیہ اور قطر نے اس ملاقات میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور انہوں نے پاکستانی درخواست کی حمایت بھی کی، تاہم وہ دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کی حساس نوعیت سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ رحمۃ اللہ نجیب نے مزید کہا کہ پاکستانی وفد کو آگاہ کیا گیا کہ فتویٰ کونسل کو باضابطہ تحریری درخواست بھیجی جا چکی ہے، جس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی اضافی درخواست اور طالبان کا ردعمل
رحمۃ اللہ نجیب نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران یہ بھی تجویز دی کہ پاکستانی طالبان جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان کے اندر منتقل کر دیا جائے۔ افغان وفد نے جواب دیا کہ اگر پاکستان ان جنگجوؤں کو سیاسی قوت سمجھتا ہے تو وہ ان کے لیے سیاسی راستہ نکال سکتا ہے، لیکن اگر انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ کابل حکومت دہشت گردوں کی حمایت کر رہی ہے، جو درست تاثر نہیں۔

افغانستان کا پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کا پیغام
طالبان نائب وزیرِ داخلہ نے کہا کہ طالبان حکومت کا پاکستان یا اس کے عوام کے خلاف کوئی برا ارادہ نہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ موجودہ کشیدگی پاکستانی شہریوں کو متاثر کرے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کا تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مسئلہ گزشتہ 23 برس سے جاری ہے جبکہ بلوچ علیحدگی پسندوں کا معاملہ پچاس سال پرانا ہے، یعنی یہ تنازعات طالبان حکومت کے قیام سے بھی پہلے کے ہیں۔

بات چیت کے لیے طالبان کی آمادگی برقرار
رحمۃ اللہ نجیب نے واضح کیا کہ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، تاہم طالبان حکومت اب بھی بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق افغانستان خطے میں امن اور استحکام چاہتا ہے اور تصادم کے بجائے مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔

Comments are closed.