پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفوں کو جراتمندانہ قدم قرار دیتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے 27ویں آئینی ترمیم کے طریقۂ کار پر شدید اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ترمیم آئین اور پارلیمانی روایات کی روح کے منافی ہے۔
ججز کو خراج تحسین
سابق اسپیکر اسد قیصر نے اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے دونوں ججز نے آئینی اصولوں کے تحفظ اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک جراتمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ اقدامات نے پورے عدالتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عدلیہ میں پیدا ہونے والی بے چینی تشویشناک ہے۔
آئینی ترمیم پر سخت سوالات
اسد قیصر نے حکومت کے طریقۂ کار پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم “جلدی اور دباؤ” میں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار ترمیم کی گئی، پھر کہا گیا کہ اس حصّے کی وضاحت الگ ہے اور یہ اصل میں کچھ اور معنی رکھتا ہے۔ انہوں نے اسے پارلیمانی عمل کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کی ترمیم کسی بھی جمہوری روایت کے مطابق نہیں۔
نواز شریف پر تنقید
پی ٹی آئی رہنما نے مسلم لیگ ن کے قائد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگاتے ہیں مگر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “کل وہ اچانک اجلاس میں آ گئے، شاید دباؤ یا سیاسی ضرورت کے تحت۔”
پی ٹی آئی کا اہم اجلاس
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ آج پاکستان تحریک انصاف اپنے اہم اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ آئینی تبدیلیوں، عدلیہ کی صورتحال اور حالیہ استعفوں کے پیش نظر ایک متحدہ اور مضبوط سیاسی موقف سامنے لایا جائے گا۔
وکلاء اور مزدور تنظیموں سے اپیل
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں آئینی بحران کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، اور ایسے موقع پر وکلاء تنظیموں، مزدور یونینز اور سول سوسائٹی کو جمہوری اصولوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق ملکی آئین کی بالادستی اور انصاف کے نظام کو مضبوط کرنا تمام اداروں اور شہریوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
موجودہ سیاسی تنازعہ
حالیہ 27ویں آئینی ترمیم اور سپریم کورٹ کے دو ججز کے استعفوں نے ملک میں ایک نئی سیاسی اور عدالتی بحث چھیڑ دی ہے۔ حکومت ترمیم کو عدالتی اصلاحات کا حصہ قرار دے رہی ہے، جبکہ اپوزیشن اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں، وکلاء تنظیموں اور آئینی ماہرین میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ یہ بحران مستقبل کی عدالتی سرگرمیوں اور حکومتی پالیسیوں پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
Comments are closed.