بچپن چھوٹا اور لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھا تو “اے دل ناداں” والی لتا جی نے ھمیں اپنے سحر میں ایسا قید کیا کہ آج تک خلاصی ممکن نہ ہوئی۔۔۔ تین دہائیوں سے اوپر ہو چکے۔ نہ لتا جی کے پھونکھے گئے فسوں میں کمی آئی نہ کبھی یہ محسوس ہوا لتا جی نے کہیں کوئی کمی رہنے دی ہے۔
لڑکپن میں راولاکوٹ سے راولپنڈی کے لیے عازم سفر ہوتے تو کھڑک کیراکی پل کراس کرتے ہی بیگ سے ٹی ڈی کے کی نوے منٹ دورانیہ کی بمبیٹ میوزک ہاؤس بنک روڈ سے فرمائشی ریکارڈڈ کیسٹ ھم فورا منصف استاد تک پہنچا دیتے۔ جس میں اول و آخر بس لتا جی ہوتی تھیں۔۔ ایک کیسٹ ختم ہونے سے پہلے ہی دوسرے دوست اپنی کیسٹ آگے بڑھا دیتے اور اس میں بھی لتا اوررفیع کے سوا کچھ نہ ہوتا۔۔۔ راولپنڈی پہنچ کر استاد اسرار کرتا کہ یہ کیسٹ مجھے دے دیں اور ھم ہر بار کاپی کروا کر دینے کا وعدہ کر کے نکل جاتے۔وقت بدلا۔ عمریں بیتی، پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر ذاتی گاڑیوں پر منتقل ہو گیا۔ بالوں میں سفیدی اتر ائی۔اگرکچھ نہ بدلا تو ھمارا لتا جی سے چل رہا رومانس ۔۔
زندگی میں جب جب مایوسی اور اداسی نے گھیرا تو لتا جی اور فتح علی نے دلاسہ دیا،جب جب خوشیوں سے نہال ہوئے تو ان گھڑیوں میں بھی لتا جی نے ہی رنگ بکھیرے۔ لتا جی میرے لیے صرف ایک گائیکہ نہ تھی۔ وہ ایک ایسی متاثر کن کہانی تھی کہ جس جس نے اسے پڑھا،سنا، اسے لگا کہ زندگی کے برے ترین حالات میں بھی امید اور روشنی کی کرن کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے۔ بس آپ نے اس تک پہنچا ہوتا ہے۔۔۔ برصغیر کی اس سب سے سریلی کوئل کی کہانی آپ پر آشکار کرتی ہے کہ زندگی میں کامیابی کی آخری چوٹی پر براجمان ہونے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔
وہ محض چار برس کی تھی جب اسکا باپ دینا ناتھ اسے صبح 4 بجے جگا کر ریاض کرواتا تھا۔۔ اگر سر میں کوئی کمی ہوتی تو وہ ننھی لتا کو اٹھا کر ایک بڑے صندوق پر بٹھا دیتا ۔۔ اور اس وقت تک نیچے اتار کر ناشتہ نہ دیتا جب تک لتا زیر مشق راگ کا مطلوبہ معیار حاصل نہ کر لیتی۔
میں نے جب جب لتا کو سنا یوں لگا وہ تیز رفتاروں کی بھاگیں کھینج لیتی ہیں اور سست روی کو رفتار عطا کرتی ہیں۔
گویا لتا ایک اعتدال کا نام تھا،سکون کا ایک پیغام تھا۔
لتا،ایک فسوں ، جو پھونک دیا گیا ہے۔
ایک سحرجو ھمیشہ طاری رہے گا۔
Comments are closed.