بھارت میں مسلمانوں پر مظالم

تحریر:محمد شہباز

بھارت میں فسطائی مودی حکومت نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل 2019میں منظور کردہ متنازعہ شہریت ترمیمی بل CAA کونافذ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔متنازعہ شہریت ترمیمی قانون CAA ایک ایسے وقت میں بھارت میں نافذ کیاگیا ہے جب ہندوتوا BJP مسلسل تیسری مرتبہ برسر اقتدار آنے کیلئے چند ہفتوں بعد انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہے۔مودی حکومت کی جانب سے2019 میں مذکورہ متنازعہ شہریت ترمیمی بل کی منظور ی کے بعد پورے بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھڑک اٹھے تھے۔جن میں مسلمانوں کے علاوہ تمام مکتبہ فکر کیساتھ وابستہ افراد نے بھرپور شرکت کی تھی اور دہلی کا شاہین باغ احتجاج اور مظاہروں کا مرکز تھا۔جس نے پوری دہلی کو کئی مہینوں تک مفلوج کرکے رکھا تھا۔شاہین باغ کے مظاہروں میں شرکت کرنے والی 82سالہ بلقیس بانو شاہین باغ کی دادی کے نام سے مشہور ہوئیں اور معروف امریکی ٹائم میگزین نے 2020 کیلئے جن 100 بااثر شخصیات کی فہرست جاری کی تھی ان میں اگر ایک جانب بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی تھے تو دوسری جانب بی جے پی حکومت کا منظور کردہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانونCAA کی مخالفت کرنے والی شاہین باغ دہلی کی دادی 82 سالہ بلقیس بانو بھی تھیں۔شاہین باغ کی دادی کے نام سے معروف 82 سالہ بلقیس بانو کی ٹائم میگزین میں شمولیت کو بہت اہم قرار دیا جا رہا تھا۔ گو کہ ان کا ذکر 100ویں نمبر پر تھالیکن وہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا نمایاں چہرہ بن کر سامنے آئی تھیں۔101 دن تک جاری رہنے والی ملک گیر ہڑتال میں وہ جنوب مشرقی دہلی کے شاہین باغ میں روزانہ صبح سے رات دیر تک ہزاروں دوسری خواتین کے ساتھ دھرنے میں شریک ہوتی تھیں۔شاہین باغ کی دادی کے بارے میں ٹائم میگزین کی بھارتی نژاد صحافی رعنا ایوب نے لکھا تھا کہ جب وہ ان سے ملیں تو انہوں نے جاتے ہوئے ان سے کہا میں اس وقت تک یہی رہوں گی جب تک میری رگوں میں خون دوڑ رہا ہے تاکہ بھارت کے بچے اور دنیا انصاف اور برابری کی بنیاد پرسانس لے سکیں۔ رعنا ایوب نے یہ بھی لکھا تھا کہ بلقیس بانوکو مشہور ہونا چاہئے تاکہ دنیا تاناشاہی کے خلاف جدوجہد کی طاقت کا احساس کرے۔دوسری جانب نریندرا مودی کو دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل کیے جانے پر ٹائم میگزین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مودی کا تذکرہ بھارت میں جمہوریت کو زک پہنچانے کے حوالے سے کیا گیا ۔
سی اے اے قانون کے تحت بھارت کے پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلم شہریوں کو بھارت کی شہریت دی جائیگی ۔ایکٹ کے تحت 31دسمبر 2014سے پہلے بنیادی طور پر افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت آنے والے ہندوئوں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت ، جین مذہب کے ماننے والوں اور عیسائیوں کو شہریت کا اہل قرار دیاجاچکا ہے۔23فروری 2020 میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اس وقت احتجاج کے بعد تشدد پھوٹ پڑا جس کے بعد مسلم کش فسادات میں 53افراد قتل اور سینکڑوں زخمی ہو گئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔جب مودی کابینہ میں شامل مالیاتی وزیر انو راگ ٹھاکر نے دہلی میں ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے گولی مارو ۔۔۔۔ کو۔واضح اور دو ٹوک الفاظ میں مسلمانوں کو گالی دی گئی۔البتہ مودی اور اس کی ہندتوا حکومت مسلمانوں کو اپنے وزیر کی جانب سے دی جانے والی گالی پر خاموش تماشائی بنی رہی،اور پھر دنیا نے دہلی میں مسلم کش فسادات کا مشاہدہ کیا،جس میں مسلمانوں کاقتل عام کرنے کے علاوہ ان کی مساجد،درسگاہوں،درگاہوں،قبرستانوں اور رہائشی گھروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔طرفہ تماشہ یہ کہ دہلی پولیس جو بھارتی حکومت کے زیر انتظام کام کرتی ہے،نے مسلمانوں کو تحفظ دینے کے بجائے ہندو بلوائیوں اور دہشت گردوں کیساتھ مل کر دہشت گردانہ حملوں میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔جس کی ویڈوز آج بھی سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر محفوظ ہیں،جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے دہلی پولیس کو مسلم کش فسادات میں براہ راست ملوث ٹھرایا ہے۔جس کا خمیازہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کو مودی حکومت کی جانب سے پورے بھارت میں اپنے دفاتر ، اداروں پر چھاپوں اور بندش کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔
بھارت کی تمام مسلم تنظیموں نے CAAکے نفاذپر سخت تنقید کرتے ہوئے شہریت ترمیمی بل اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن ایکٹ دونوں متنازعہ قوانین کو مسلم دشمن قراردیا ہے ۔ آر ایس ایس پر مبنی نظریہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرکے مسلمانوں کیلئے حقیقی خطرہ ہے ۔مودی کے بھارت میں مسلمانوں کیساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔مودی حکومت نے بھارت میں عام انتخابات سے قبل متنازعہ مسلم مخالف شہریت ترمیمی قانونCAA کو نافذ کرنے کااعلان کیا ہے۔شہریت ترمیمی قانون بھارت کے پڑوسی ممالک کے مسلمان پناہ گزینوں کے علاوہ تمام مذاہب کیساتھ وابستہ افرادکو بھارتی شہریت دینے کی اجازت دیتا ہے۔مسلمان کمیونٹی کو اس قانون کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کیلئے انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے CAA کو مسلم دشمن قرار دے چکے ہیں۔ مودی کے دور اقتدارمیں بھارت میں مسلم مخالف جذبات میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔2014 میں جب سے مودی نے بھارتی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا ہے، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حملوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ریاستی سرپرستی میں ہندوتوا بی جے پی لیڈر کھلے عام مسلمانوں کے خلاف جرائم کو ہوا دیتے ہیں۔اس کے علاوہ مودی حکومت بھارت میں ہندو توابالادستی کو فروغ دے رہی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو نہ صرف زندگی کے تمام شعبوں میں ان کے حقوق سے محروم بلکہ ان کیلئے تعلیم اور نوکریوں کے دروازے بھی بند کیے جاچکے ہیں،انہیں جان بوجھ کر ترقی کے بنیادی مساوی حقوق سے بھی محروم کیا گیا ہے۔ان پر آئے روز ہجومی تشدد کے نتیجے میں حملے کیے جاتے ہیں اور ماب لیچنگ میں آج تک درجنوں بھارتی مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھ چکے ہیں۔کبھی بڑے گوشت گھروں میں پکانے کے شبہ میں بھارتی مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے،تو کبھی لو جہاد کے نام پر انہیں ہندوتوا غنڈوں کے ہاتھوں زدو کوب کیا جاتا ہے۔مسلم خواتین اور بچیوں کو پردہ کرنے کی پاداش میں حملوں کیساتھ ساتھ تعلیمی اداروں سے بیدخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اور تو اور امتحانی مراکز میں باپردہ مسلم بچیوں کو امتحان دینے سے زور زبردستی روکا جاتا ہے۔بے شمار مسلم بچیاں ان ظالمانہ پابندیوں کے باعث اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ہندو تواغنڈے ان پر چلاتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑانے سے گریز نہیں کرتے۔

08 مارچ کو بھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں مسلمانوں کے خلاف بدترین نفرت کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے جب بھارتی پولیس اہلکاروں نے سڑک کنارے نما ز جمعہ ادا کرنے والے مسلمانوں کو لاتوں سمیت وحشیانہ تشددکا نشانہ بنایا ہے ۔ یہ افسوسناک واقعہ نئی دہلی کے اندر لوک علاقے میں پیش آیا ہے جب سڑک کنارے نماز جمعہ ادا کرنے پردہلی پولیس کے 2ہیڈ کانسٹیبلوں نے مسلمانوں کو ٹھڈوں اور تھپڑوں سمیت تشددکا نشانہ بنایا اورانہیں گھسٹینا شروع کردیا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہو گئی ہے ۔ بھارتی مسلمانوں کے گھروں کو دن دیہاڑے بلڈوزرسے تباہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔برسوں پرانی تعمیر شدہ تاریخی مساجد پرہندوئوں کی جانب سے آئے روز دعوے دائر کیے جاتے ہیں اور پھر عدالتوں کے ذریعے ہندوئوں کے حق میں فیصلے دلائے جاتے ہیں۔ تاریخی بابری مسجد کی شہادت اور پھر اس پر رام مندر کی بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے تعمیر کی اجازت کل کی بات ہے۔رام مندرکی تعمیر کی اجازت دینے والے بھارتی سپریم کورٹ کے بینچ کے سربراہ رنجن گوگوئی کو سبکدوشی کیساتھ ہی بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا کا ممبر بنایا گیا۔جس کا بی جے پی کی جانب سے ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کے پیش نظر ہی نسل کشی سے متعلق عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر اسٹنٹن گیگوری دو برس قبل معروف بھارتی نیوز پورٹل دی وائر کے سربراہ کرن تھاپر کیساتھ ایک انٹرویو میں کھل کر اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمان نسل کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور اگر دنیا نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو دونوں مقامات پر نسل کشی کو روکا نہیں جاسکتا۔
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت کے سکولر کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے اس قانون کو مسلم دشمن قرار دے چکے ہیں۔ دسمبر 2019میں اس قانون کی منظوری کے خلاف مظاہروں کے بعد مودی حکومت نے اس قانون کیلئے قواعد کا مسودہ تیار نہیں کیا تھا ۔متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ بی جے پی کے 2019کے انتخابی منشور کا لازمی حصہ تھا۔ بلاشبہ یہ قوانین بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیلئے نافذ کئے گئے جوکہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔مودی حکومت کا انتہا پسندانہ ایجنڈا جنوبی ایشیائی خطے میں امن کیلئے حقیقی خطرہ ہے ۔ فسطائی مودی حکومت بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مسلمانوں کی بنیادی آزادیوں اور حقوق کو پامال کر رہی ہے۔دنیا کو بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔تاکہ انہیں نریندرا مودی اور اس کی فسطائی بی جے پی کی دہشت گردی اور بربریت سے بچایا جاسکے۔

Comments are closed.