یورپ میں بچوں کی تربیت، والدین کی بنیادی ذمہ داری

مظہر حسین راجہ بارسلونا

یورپ میں بچوں کی تربیت والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے، اپنے بچوں کو رزق حلال کھلائیں، سپین کے قانون پر عمل کریں اور یہاں پر کوئی غلط کام نہ کریں جس سے وطن عزیز کی بدنامی ہو۔ ان خیالات کا اظہار دعوت اسلامی یورپ کے نگران جناب اسید رضاء صاحب نے بارسلونا میں کیا۔

دعوت اسلامی بادالونا مرکز میں ناظرہ ،حفظ و درس نظامی کے امتحانات پاس کرنے والے طلباء کی تقسیم اسناد کی تقریب ہفتہ 9 مارچ کو منعقد ہوئی جس میں بچوں نے نعتیں پڑھیں، تقاریر کیں اور کوئز سیشن بھی ہوا۔ نگران کتلونیہ جناب ارشد عطاری اور ناظم جامعہ المدینہ علامہ شہباز مدنی صاحب کے علاوہ دیگر مراکز کے علمائے کرام بھی اس محفل میں موجود تھے اور خطابات کیے۔ کوئز سیشن میں اسلام اور سیرت الرسول کے متعلق مشکل ترین سوالات پوچھے گئے جس میں مکی اور مدنی ٹیم نے حصہ لیا ، دونوں ٹیموں سے دس دس سوالات پوچھے گئے۔ مقابلہ سخت تھا بچوں نے بہترین تیاری کر رکھی تھی، برحال مدنی ٹیم نے ایک پوائنٹ سے مقابلہ جیت لیا۔ کوئز کے لیے ججز کے فرائض چوہدری صفدر وڑائچ، راجہ شفیق تبسم اور مظہر حسین راجہ نے سر انجام دئے۔

 جناب اسید رضا صاحب نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ ڈرگ کا کام کرنا، جعلی ریزیڈینسیاں تیار کرنا، یورو کے جعلی نوٹ تیار کرنا اور دیگر بے شمار غیر قانونی کام پیسے کی ہوس ہے ورنہ سب لوگوں کو اللہ پاک روزی دے رہا ہے۔ یہ غیر قانونی کام کرنے والے سب لوگ تعلیم یافتہ ہیں مگر تربیت یافتہ نہیں۔ اسلام، کلمہ اور نماز وغیرہ یاد کرنے کا نام نہیں اپنے عمل سے ثابت کرنے کا نام ہے۔اگر اپ اپنے بچوں کو حرام کی کمائی کھلائیں گے تو کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ دین پر چلیں گے، بچوں کی تربیت میں سب سے پہلے انھیں رزق حلال کما کر کھلائیں اور صرف بچے پیدا کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اسلام کے مطابق تربیت بھی اپ کی ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اگر اپ کا بچہ جوان ہے اور کام بھی نہیں کرتا اور بہترین فون رکھتا اور اس کے پاس وافر پیسہ ہے تو اس سے پوچھیں کہ کہاں کماء رہا ہے اورذریعہ آمدن کیا ہے۔

اپ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بچوں کی زبردستی کی شادیاں مت کریں، اسلام نے کب منع کیا ہے کہ بچے کی رضامندی کے مطابق شادی نہ کریں، والدین کے غلط فیصلوں کی وجہ سے طلاق کا تناسب دن بدن بڑھ رہا ہے اور بچے یہاں کے اداروں تک پہنچ کر والدین کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اور چھوٹے بچوں کی تربیت پر بھی والدین توجہ نہیں دیتے بلکہ اکثریت مسجد کے ساتھ بھی رابطہ نہیں رکھتے کہ ہمارا بچہ کیسا پڑھ رہا ہے اور نہ ہی بچوں کو ٹائم دیتے ہیں بلکہ سولہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی کرتے رہتے ہیں۔ اور بچوں کو مارتے پیٹتے بھی ہیں جس وجہ سے بچے سکول میں شکایت کرتے ہیں اور پھر ادارے بچوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں اور واپس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر والدین سخت پریشان رہتے ہیں اور ملک کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔

 پوری تقریر کے دوران نگران اعلی نے کمیونیٹی کے بہت سارے کرنٹ افیئرز پر بات کی اور لوگوں کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی کہ اللہ اور اس کے رسول کے راستے پر چلو اور اپنا مسلمان ہونا عمل سے ثابت کرو تا کہ اس معاشرے میں آپ کی عزت ہو اور ملک پاکستان کا نام بھی بدنام نہ ہو اور سپین کے قوانین پر عمل کرنا اپ پر فرض ہے۔ بلکہ اخر میں انہوں نے کمیونٹی سے گزارش کی کہ ایسے لوگوں کا خود گورنمنٹ کو بتا دیا کریں تاکہ معاشرہ ان کے شر سے محفوظ رہے اور جرم کی بھی بیخ کنی ہو سکے۔

تقریر کا صرف متن بیان کیا ہے تا کہ عام لوگوں تک اس تربیتی نشست کا پیغام پہنچ جائے ورنہ پورا خطاب بہت لمبا تھا اور بہت سے مسائل پر کھل کر بات ہوئی۔ دعوت اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیمات کا شکریہ جو کیمیونیٹی کے موجودہ مسائل پر بات کرتے ہیں تاکہ والدین بھی بچوں کی طرف پوری توجہ دیں اور جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بچوں کو ان جرائم سے بچایا جائے۔

Comments are closed.