نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموںو کشمیر میں کشمیری نوجوانوں اور بچوں کو تعلیمی طور پر پسماندہ رکھنے کے اپنے مذموم اور شیطانی منصوبے کے تحت جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کے زیر انتظام چلنے والے فلاح عام ٹرسٹ کے اسکولوں کی تعلیمی سرگرمیاں بند کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرکے محکمہ سکول ایجوکیشن نے فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے300سے زائد سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔یہ ا حکا مات حال ہی میں مقبوضہ کشمیرمیں قائم کی گئی نئی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی ایس آئی اے جو بظاہر مقبوضہ جموں وکشمیر پولیس کا حصہ ہے،کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں جس میں فلاح عام ٹرسٹ پر سرکاری زمینوں پر تجاوزات ، غیر قانونی کاموں اور دھوکہ دہی کے جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔قابض حکام نے الزام لگایا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر زیادہ تر فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام سکولوں ، مدارس ، یتیم خانوں ، مساجد کے منبرو محراب اور دیگر فلاحی اداروں کے وسیع نیٹ ورک سے اپنا مالی نظام چلاتی ہے اور اس طرح کے اداروں نے 2008، 2010اور 2016کی عوامی احتجاجی تحریکوں میں کردار ادا کیاتھا۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں کو پابندیوں کی زد میں لاکر کشمیری نونہالوں کو زیور تعلیم سے محروم رکھنے کی سازش اور کوشش کی گئی ہو،1975ء میں اس وقت کے طالع ازما شیخ عبداللہ نے فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں پرپہلی بار پابندیاں عائد کرکے اپنے لیے رسوائی اور ذلت کا سامان کیا۔یہ فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کوحصول تعلیم سے روکنا تو ہے ہی ،اصل میں یہ سوچوں کی لڑائی بھی ہے،جو ابتدائی افرنیش سے لیکر قیامت کی صبح تک جاری ہے اور جاری رہے گی۔کیونکہ حق اور باطل کے درمیان یہ لڑائی کبھی ختم نہیں ہوگی اور یہ اللہ تعالی کی سنت بھی ہے کہ حق پرست تمام تر مشکلات اور کمزوریوں کے باوجود باطل کے ساتھ نبرد ازما ہونے میں کبھی نہیں کترائے ۔1989ء میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر زیر عتاب آگئی،1990 میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرکے اس کے زیر اہتمام سکولوں اور دوسرے اداروں کو بند کردیا گیا،مگر وقت کا پہیہ کب رکا کے مصداق حالات کے تمام تر جبر کے باوجود جماعت اسلامی پھر ایک بار دعوتی کام میں مصروف عمل رہی اور فلاح عام ٹرسٹ میں بچے اپنے سینوں کو تعلیم سے منور کرتے رہے۔حالانکہ 1990ء سے 94 اور 95تک جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کو و ہ قرض بھی چکانا پڑا جو اس پر واجب ہی نہیں تھا۔بدنام زمانہ کوکہ پرے اور اس کے دہشت گردوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ سینکڑوں اراکین،ہمدردوں اور کارکنوں کا نہ صرف قتل عام کیا بلکہ ان کے گھروں کے ساتھ ساتھ میوہ باغات تک کا صفایا کیا گیا۔مورخ اس ظالمانہ اور سفاکانہ دور کو کبھی نہیں بھولے گا۔جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اپنے گھروں سے بھی ہجرت کرنا پڑی۔یوں کہا جائے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی ایک دہکتا ہوا انگارا ہاتھ میں لینے کے مترادف تھا۔کوکہ پرے اور اس کے غنڈوں کو ایک ایک کرکے اپنے اختتام کو پہنچایا گیا اور جماعت اسلامی پھر ایک بار پورے مقبوضہ کشمیر میں اپنے دعوتی کام میں مصروف عمل رہی۔فلاح عام ٹرسٹ کے سکول اور دوسرے ادارے بھی پھل پھول رہے تھے کہ2019 آگیا۔مودی کی فسطائی ذہنیت پھر کام کرگئی،جماعت اسلامی اور اس کے تمام اداروں پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں۔امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض سمیت جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو پابند سلاسل کیا گیا۔جماعت اسلامی کے اداروں پر باضابطہ قبضہ کیا گیا ۔بقول الطاف حسین حالی
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
جماعت اسلامی نے پہلے سے زیادہ جذبوں کو بروئے کار لاکراپنے ادھورے مشن کو جاری و ساری رکھا،مگر 14جون 2022کو پھر ایک بار جماعت اسلامی کے بنیادی ڈھانچے فلاح عام ٹرسٹ کو پابندیوں میں جکڑا گیا۔آخر کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے اداروں کو بار بار غیر قانونی قرار دیکر پابندیوں کی زد میں لایا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 1996 کی بات ہے کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے دو اہم اراکین جناب غلام رسول ڈار اور جناب انعام اللہ خان جو کہ مسلح جدوجہد کے بانیاں تھے اور ایک ساتھ جہادی میدان سے بیس کیمپ تشریف لاچکے تھے، کے ساتھ ایک طویل ملاقات ہوئی،جناب ڈار صاحب نے مجھے جناب خان صاحب سے ملوایا۔ملاقات کے دوران اسلام کے بڑے داعی اور رجل عظیم جناب سعدالدین صاحب کا ذکر چھڑا۔تو خان صاحب کہنے لگے کہ جماعت اسلامی پہلی بار عتاب کا شکار نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی جماعت کو سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔پھر کہنے لگے کہ جناب سعد الدین صاحب نے مشکل ترین اور صبر ازما حالات میں نہ صرف جماعت اسلامی کو تسبیح کے دانوں کی طرح متحد اور یکجا رکھا بلکہ صبر ازما حالات سے اپنے رفقا اور اکابرین کو روشناس کرایا۔خان صاحب پھر یوں گویا ہوئے کہ سعد صاحب نے مشکل ترین حالات کو ایک شعر میں یوں سمویا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہر فرد کو اطمینان قلب میسر ہوا۔ سعد صاحب کا شعر کچھ یو ں تھا۔
خدا کو خدا کون نہیں کہتا ہے
لیکن ہم نے جب کہا ہے تو سزا پائی ہے
جماعت اسلامی فرشتوں کی کوئی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی آج تک کسی نے یہ دعوی کیا ہے البتہ نہ جانے پوری دنیا میں جماعت اسلامی اور اس کے ساتھ نظریاتی و ذ ہنی ہم آہنگی رکھنے والی جماعتیں ہی کیوں زیر عتاب آتی ہیں؟مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد کی داغ بیل پڑی تو فلا ح عام سکولوں میں زیر تعلیم اور فارغ التحصیل طلبا کے علاوہ اساتذہ اس جدوجہد کا ہر اول دستہ بنے۔حزب المجاہدین کا انتخاب عمل میں لایا گیا تو قیادت کا قرعہ فال بھی جماعت اسلامی سے نکالا گیا۔شہادتوں کی برسات لگی ،ایک سے بڑھ کر ایک قربانی کا مجسمہ بنا۔حالات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی حزب المجاہدین پورے قد کاٹھ کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑی پنجہ آزمائی کررہی ہے اور سعدالدین صاحب کے شاگرد سید صلاح الدین احمد اس قافلہ سخت جان کو برہمن سامراج سے لڑانے میں دن رات ایک ہوئے ہیں۔جناب سید کے دو لخت جگر سید شاہد یوسف اور سید شکیل یوسف بدنام زمانہ تہاڑ جیل کی کال کوٹھریوں میں بند ہیں،ان کے مکان کو کئی برس قبل بارودی دھماکے میں تباہ کیا جاچکا ہے،ان کی جائیداد ضبط کی جاچکی ہے مگر جناب سید کے قدم نہ پہلے ڈھگمائے اور نہ ہی آج ان میں کوئی جنبش آرہی ہے۔
2019 میں جماعت اسلامی پر عائد کی جانے والی پابندی میں بھارتی وزارت داخلہ کے بیان میں یہ الزامات بھی عائد کئے گئے کہ جماعت اسلامی دوسری تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرتی ہے جو لوگوں میں بھارت کے خلاف نفرت اور شدت پسندی کے جذبات کو بڑھکانے میں اہم کردار اد ا کرتی ہے۔اس سے قبل 1994 میں سابق بھارتی وزیر راجیش پائلٹ جو کہ اس وقت کشمیر آفیئرزکے انچارج بھی تھے،نے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ جمو ں وکشمیر میں بقول اس کے شورش پر قابو پانے کیلئے جماعت اسلامی کا صفایا ناگزیر ہے،گوکہ جماعت اسلامی کا صفایا تو نہیں ہوسکا البتہ راجیش پائلٹ مذکورہ انٹریو کے کچھ پی عرصے کے بعد ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہوا ۔
جماعت اسلامی کے بارے میں جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مصر کی عظیم تحریک اخوان المسلمین سے متاثر ہے،جس کے سربراہوں سید قطب اور حسن النباء کو فوجی عامر جمال ناصر نے اپنے لیے بڑا خطرہ قرار دیکر سید قطب کو تختہ دار پر چڑھایا تو جناب حسن النباء کو ایک حملے میں شہید کروایا۔2012 میں مصر میں طویل عرصے کے ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا تو انتخابات میں اخوان المسلمین برسراقتدار آئی،محمد مرسی صدر منتخب ہوئے مگر ایک برس کے بعد ہی ایک اور فوجی عامر جنرل السیسی نے جناب مرسی کو اقتدار سے ان الزامات کے تحت معذول کیا کہ انہوں نے تحریک مزاحمت حماس کے ساتھ روابط بڑھانے کے علاوہ برسوں سے بند غزہ سرحد کو آمد و رفت کیلئے کھولا۔پھر 17جون 2019 میں جیل کی کال کوٹھری سے ان کی میت نکلی،اخوان کے سینکڑوں مردو خواتین کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
تحریک مزاحمت حماس بھی صہیونی اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں چٹان کی مانند کھڑی ہے۔اور شیخ احمد یاسین ویل چیئر پر آنے کے باوجودبھی اپنے نظریات او ر نصب العین پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ بنگلہ دیش میں 90سالہ پروفسیر غلام اعظم سے لیکر عبدالقادر ملہ سمیت دسویوں رہنما اور کارکن تختہ دار کو چوم چکے ہیں۔مگر پھر بھی جنون تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔زیادہ پرانی بات نہیں ہے جناب محمد اشرف صحرائی بھی 2021 میں اپنے نصب العین پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر جیل کے اندر ہی اپنی جان قربان کرچکے ہیں،اس سے قبل اپنا لخت جگر جنید صحرائی کو بھی قربان کرچکے ہیں۔اپنے قلم سے پوری دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے سید ابولااعلی مودی کے لٹریچر میں نہ جانے کون سی قوت کارفرما ہے کہ اس کو پڑھنے والا نہ جانے کیوں تختہ دار کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔خود جنا ب سید قادیانیت کو طشت ازبام کرنے کی پاداش میں سزائے موت اور ان کی جماعت پابندی کا مزا چکھ چکی ہے اورجس دن جناب سید نے پھانسی کے پھندے کو چھومنا تھا کہا جاتا ہے کہ اس دن وہ بڑے سکون اور آرام سے سورہے تھے ،جس پر جیل انتظامیہ ہکا بکا اور پریشان تھی۔اور جب انہیں جگایا گیا کہ آج اپ کی زندگی کا آخری دن ہے تو ان کا مشہور جملہ تھا،اگر موت لکھی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی اور موت نہ لکھی ہو تو یہ الٹے بھی لٹک جائیں یہ بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔پھر ایسا ہی ہوااور جناب سید کی سزائے موت کو منسوخ کیا گیا۔بھارت ہو یاکوئی ظالم اور جابر قوت،پابندیوں سے حق و صداقت کی آواز کو نہ پہلے ختم کیا جاسکا اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔کیونکہ حق والے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیشہ باطل پر غالب آگئے۔چاہیے وہ بدر کا میدان ہو جہاں 313 ایک ہزار سے زائد پر غالب آگئے اور یہ تو کل کی بات ہے کہ 13 اگست 2021 میں طالبان نے دنیا کی 56 ممالک کی جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس فوج کو چاروں شانے چت کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ حق والے قوت اور طاقت سے نہ پہلے ڈرے اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔یہی فلسفہ حق پرستوں کو ظالم قوتوں سے لڑانے اور ٹکرانے پر آمادہ کرتا ہے۔
Comments are closed.