بھارت کے نئے دفاعی سودے۔رعایا ننگی،حکومت جنگی

تحریر: ارشد میر

بھارت اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں غربت، بنیادی سہولیات کی کمی اور فوجی جنون ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک طرف ملک میں 85 کروڑ افراد ایسے ہیں جو امدادی راشن پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، تو دوسری طرف مودی حکومت نے حالیہ فوجی شکستوں کے بعد تقریباً 1,982 کروڑ روپے کے 13 نئے ہنگامی دفاعی معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں۔ ان معاہدوں میں جدید ہتھیار، دفاعی سازوسامان اور نئے ٹیکنالوجی پر مبنی نظام شامل ہیں۔ اس اقدام نے نہ صرف بھارت کے جنگی جنون اور خطرناک عزائم کو واضح کیا بلکہ اس کی اندرونی کمزوریوں اور خارجی شکستوں کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔

بھارتی حکومت نے ان ہنگامی دفاعی معاہدوں میں جن چیزوں کو شامل کیا ہے، ان میں انٹیگریٹڈ ڈرون ڈیٹیکشن اینڈ انٹرڈکشن سسٹم، ہلکے وزن کے ریڈارز، مختصر فاصلے کے فضائی دفاعی نظام، ریموٹ کنٹرول جہاز، ورٹیکل ٹیک آف اور لینڈنگ سسٹمز، مختلف اقسام کے ڈرونز، کوئیک ری ایکشن فائٹنگ وہیکلز، نائٹ سائٹس، بلٹ پروف جیکٹس اور بیلسٹک ہیلمٹس شامل ہیں۔ ان تمام اشیاء کی خریداری ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک میں کروڑوں افراد بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔

دفاعی معاہدوں کا اعلان رواں برس 22اپریل کو پہلگام فالس فلیگ آپریشن اور بعد ازاں اس کے بہانے6 تا 10مئی “آپریشن سندور” کے نام پرپاکستان پر جارحیت کے جواب میں بدترین شکست اور ہزیمت کے تناظر میں سامنے آیا ہے جو بھارتی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک نمایاں باب کے طور پر درج ہوا ہے۔ان معاہدوں کو سرعت کے ساتھ عمل میں لایا جارہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے ہاتھو ں ہوئی شکست کتنی بڑی ہے اور اسکا احساس بھارتیوں کو کتنا کھائے جارہا ہے ؟ بھارت پاکستان کو زیر کرنے کی کوشش میں اپنی ہی پشست تڑوا بیٹھا۔ پاکستان پر روائتی جنگی صلاحیت میں برتری کے جس زعم میں وہ خطے کی تھانیداری کرنے کی کوشش کررہا تھا اب اسکا وہ زعم رہا نہ تھانیدار کی وردی بلکہ الٹا اسکو مسلہ کشمیر کے حل، تیسری فریق کی ثالثی یا امریکی مداخلت اور پاکستان سے بات چیت کے وہ کڑوے گھونٹ بھی پینا پڑ رہے ہیں جس سے پہلے سختی سے انکاری تھا۔ اس جنگ نے بھارت کو عسکری، سیاسی، سفارتی ، اخلاقی اور قانونی غرض کہ ہر اعتبار سے شکست سے دوچار کردیا۔

بھارت نے اس سے پہلے اپنے دفاعی بجٹ میں قریب از 10 فیصد اضافہ کیا۔مبصرین بھارت کی جنگی بنیادوں پران دفاعی تیاریوں کو اسکی توسیع پسدانہ اور جارحانہ سوچ کے ساتھ ساتھ اسکے “آپریشن سندور” کی ناکامی کا عکاس قرار دے رہے ہیں۔
کیا بھارت وہ ملک ہے جسے اپنے دفاعی اخراجات اس قدر بڑھانے چاہئے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اگر اس کی اندرونی حالت کا جائزہ لیا جائے تو ایک انتہائی تشویشناک تصویر سامنے آتی ہے۔ WHO اور UNICEF کے مشترکہ مانیٹرنگ پروگرام (JMP) کے مطابق، سنہ 2000 میں بھارت کی تقریباً 73 فیصد آبادی یعنی 776 ملین افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھے۔ ان میں 91 فیصد دیہی اور 25.8 فیصد شہری آبادی شامل تھی۔ اس تشویشناک صورتحال کے تناظر میں 2014 میں مودی حکومت نے سابقہ حکومت کےپروگرام “نرمل بھارت ابھیان” کو وسعت دے کر اسے “سواچ بھارت ابھیان” کے نام سے شروع کیا۔ اس مہم کے لیے 28 بلین ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا، اور 30 لاکھ سے زائد ملازمین اور رضاکاروں کو اس مہم میں شامل کیا گیا۔
“سواچ بھارت ابھیان” کے تحت 7 لاکھ دیہات میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے صوبائی حکومتوں نے ہی 5.8 بلین ڈالر (تقریباً 40,700 کروڑ روپے) کے فنڈز جاری کیے جبکہ کارپوریٹ سیکٹر اور کمیونٹیز نے 660 کروڑ کا حصہ ڈالا۔ اس کے نتیجے میں اب تک 122 ملین (12.2 کروڑ) شہری گھریلو، کمیونٹی اور پبلک ٹوائلٹس بنائے جا چکے ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد قابل ذکر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2022 تک کھلے میں رفع حاجت کرنے والوں کی تعداد اب بھی 419 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا تقریباً 29.1 فیصد بنتی ہے۔ یعنی تقریباً ہر تیسرا بھارتی اب بھی بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہے، جو کہ اس پورے منصوبے کی افادیت پر سوال اٹھائے تو اٹھائے تاہم بھارت کے جنگی جنون پر ضرور اٹھاتا ہے۔
اگر ہم اس مسئلے کو مزید گہرائی سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی 2613 شہری اور نیم شہری بستیوں میں تقریباً 65.49 ملین لوگ جھگی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان علاقوں میں نہ تو پینے کے صاف پانی کی سہولت دستیاب ہے، نہ نکاسی آب کا مناسب نظام اور نہ ہی مناسب طبی سہولیات۔ ایسے میں دفاعی معاہدوں پر اربوں روپے نہیں بلکہ ڈالر خرچ کرنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے” سواچ بھارت” مہم پر اربوں ڈالر خرچ کیے، مگر اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ کھلے میں رفع حاجت کرنے والے افراد بھارت ہی میں پائے جاتے ہیں، اس کے بعد نائجیریا اور ایتھوپیا کا نمبر آتا ہے۔
جس ملک کی معیشت کمزور ہو، بنیادی سہولیات کا فقدان ہو، بھاری بھرکم قرضوں میں جکڑا ہوا ہو، اور جہاں عوام بھوک، بیماری اور جہالت سے دوچار ہو، اس کا اربوں روپے کے ہتھیار خریدنا نہ صرف اس کے حکمرانوں کی ترجیحات پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی شبیہ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کا مجموعی جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ایک متضاد ریاستی پالیسی پر گامزن ہے۔ ایک طرف وہ عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور جدید ملک کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے، تو دوسری طرف اپنے کروڑوں شہریوں کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھتا ہے۔ یہ تضاد نہ صرف اندرونی خلفشار کو جنم دے رہا ہے بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی شدید خطرہ بن چکا ہے۔ اگر بھارت نے اپنی ترجیحات کو ازسرنو نہ دیکھا، تو نہ صرف اس کے اندرونی مسائل میں اضافہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی ساکھ متاثر ہوگی۔


بھارت کے دفاعی بجٹ میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور حالیہ بجٹ میں 9.4 فیصد اضافہ کے ساتھ یہ 77.4 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔اس کے باوجود بھارت اپنے سے 8 سے 20 گنا چھوٹے اور عسکری طور پر کمزور ہمسایہ ممالک کو ایک مستقل خطرہ سمجھ کر ہتھیاروں کی دوڑ میں مبتلا ہے۔جس پاکستان سے اسے خار ہے اور جس سے خطرے کا پروپیگنڈہ کرتا ہے اس پاکستان سے ابھی بھی اسکا دفاعی بجٹ 9 گنا بڑا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ دفاعی تیاری کسی حقیقی خطرے کے تحت کی جا رہی ہے، یا یہ اکھنڈ بھارت کے توسیع پسندانہ نظریے کی تکمیل کی کوشش ہے؟
یہ وہ نظریہ ہے جو ہندوتوا کی بنیاد پر قائم تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے فکری رہنماؤں نے پیش کیا تھا۔ RSS کے بانی کیشوا بلی رام ہیگواڑ ، سواریکر اور ایم ایس گولوالکر نے اپنی تحریروں میں نازی جرمنی اور ہٹلر کے اصولوں کی تعریف کی تھی۔ گولوالکر نے اپنی کتاب “We or Our Nationhood Defined” میں اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانے اور ایک ہندو راشٹر کے قیام کا خواب بیان کیا۔ یہی نظریہ آج بھارتی پالیسیوں، بالخصوص مودی حکومت کی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں صاف جھلکتا ہے۔
اکھنڈ بھارت کا خواب صرف سیاسی یا فکری نظریہ نہیں رہا بلکہ یہ اب عملی اقدامات میں ڈھل چکا ہے۔ نیپال، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ، اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت، اور چین و پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں کا بڑھتا ہوا رجحان اسی سوچ کا مظہر ہے۔ مودی حکومت نے اکھنڈ بھارت کے خواب کو حقیقی شکل دینے کے لیے عسکری وسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، حتیٰ کہ داخلی فلاح و بہبود کو نظر انداز کر کے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دفاعی معاہدے اور عسکری جنون وہ دوا نہیں جو بھارت کے اندرونی مسائل کا علاج کر سکے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ عوام کی فلاح، تعلیم، صحت، صفائی اور دیگر بنیادی سہولیات کو اولیت دے، نہ کہ جنگ و جدل کو۔ بصورت دیگر، وہ نہ صرف داخلی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا بلکہ عالمی برادری میں بھی اپنی ساکھ کھو دے گا۔ ویسے بھی وہ موجودہ عالمی سیاسی نقشے میں وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق نہ مشرقی بلاک میں ہے اور نہ شمالی بلاک میں۔ یوکرائن اور ایران کی جنگ میں اسکی منافقت کھل کر سامنے آگئی ہے جس پر بہت سے ممالک نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ حقیقت کا سامنا کرے، زمینی حقائق کو تسلیم کرے اور اپنی پالیسیوں میں انسانی فلاح کو مرکزی حیثیت دے، وگرنہ تاریخ اسے صرف ایک جارحانہ اور ناکام ریاستی ماڈل کے طور پر یاد رکھے گی۔

Comments are closed.