تحریر محمد شہباز : آج جب پوری دنیا میں نسلی امتیاز کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے،بھارت میں ایک نسل پرست ہندوتوا حکومت اس وقت اقتدار پر براجمان ہے۔مودی کی قیادت میں بھارت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نسلی برتری اور نفرت کو بغیر کسی خوف وڈر کے اگے بڑھا رہا ہے۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ نسل پرست مودی حکومت بھارت بھر میں مذہبی اقلیتوں کو ڈرانے اور انہیں ان کے مذہبی احکامات پر عملدرآمد سے روکنے کے لیے دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ہندو ذات پات کا نظام موجودہ دورمیں نسلی امتیاز کی قدیم ترین شکل ہے۔بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کی جڑیں بہت گہری ہیں۔بھارت کا ذات پات کا نظام اس جدید دور میں بھی برقرار اور قائم و دائم ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر کروڑوں بھارتیوں کے ساتھ ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کو جائز ٹھرایا گیا ہے۔ بھارت میں اونچی ذات کے ہندوں کے ہاتھوں نچلی ذات جنہیں دلت کہا جاتا ہے کے لوگوں کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے۔مختلف بین الاقوامی رپورٹس میں انکشاف کیا جاچکا ہے کہ بی جے پی حکومت نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں کی زندگیوںکو ایک ڈروانا خواب بنا دیا ہے۔بی جے پی لیڈروں کی قیادت میں ہندو انتہا پسند کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اور تو اورکشمیری عوام بھی مودی کی فسطائیت اور نسل پرستی کا شکار ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی سے لے کر بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو دبانے تک، بھارت مودی کی قیادت میں ایک نسل پرست ریاست بن چکا ہے۔جہاں ہندتوا غنڈے مودی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کو کبھی گائے کا گوشت گھروں میں رکھنے کے شبہ میں ہجومی تشدد کانشانہ بناتے ہیں تو کبھی لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کا قتل کرتے ہیں ،اب تو ایک نیوز اینکر سریش چاونکے نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے ہندوئوں میں خواتین کے گھٹتے ہوئے تناسب کو بڑھانے کے لیے 40لاکھ مسلم خواتین کو ہندو بنانے کا مطالبہ کیاہے۔سریش چاونکے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے لیے مشہور ہیں، نے ایک یوٹیوب چینل پر بات کرتے ہوئے یہ زہر اگلا ہے کہ ہمیں مسلم کمیونٹی سے چالیس لاکھ خواتین کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے تناسب کو پورا کیا جا سکے کیونکہ ہندوئوں میں خواتین مردوں سے کم ہیں۔ پھر ہندوئوں میں مردوں اور عورتوں کا تناسب برابر ہوگا۔چاونکے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ایک نیوز چینل بھی چلاتے ہیں۔سریش چاونکے کو دسمبر 2021میں نئی دہلی میں منعقدہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے پر ایف آئی آر کا سامنا ہے لیکن بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کے باوجود وہ دندناتا پھر رہا ہے،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں نسلی امتیاز کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو دبانے اور انہیں ہندتوا غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی ہری بھوشن ٹھاکر نے مسلمانوں کیخلاف اپنی نفرت کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں ان لوگوں کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ اس نے مسلمانوں کا ووٹنگ کا حق بھی ختم کردینے کا مطالبہ کیا ہے۔ہری بھوشن ٹھاکرے نے مزید کہا کہ مسلمان 2024تک بھارت کو اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں لیکن اب بی جے پی جاگ چکی ہے وہ ایسا نہیں ہونے دے گی۔
نسلی امتیاز کے خاتمے کا عالمی دن اقوام متحدہ کے تحت منائے جانے کا مقصد انسانی حقوق کی پاسداری اور اجتماعی احساس ذمہ داری کو فروغ دینا ہے۔یہ دن 21 مارچ 1960 کو جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے مرنے والے 69 افراد کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔پہلی بار نسلی امتیاز کے خاتمے کا عالمی دن 1966 میں منایا گیا۔اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں نسلی امتیاز کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔اگرچہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے معاہدے کے تحت تمام افراد برابر ہیں تاہم آج تک نسلی امتیاز کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا اور آج بھی کروڑوں افراد دنیا بھر میں نسلی امتیاز کا شکار ہو رہے ہیں۔
گوکہ دنیا بھر میں اس دن کو عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے ہے کہ یوں تو دنیا کے ہر ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ کسی نہ کسی حد تک جاری ہے مگر اس ضمن میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارت کی صورتحال یقینابد ترین ہے ۔ بھارت میںخواتین کے خلاف ہر قسم کی زیادتیاں اور مذہبی اقلیتوں کے شہری حقوق کی پامالی ایک معمول بن چکی ہیں ۔ ایک جانب مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوتی ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ جموں و کشمیرکے نہتے عوام کے خلاف قابض بھارتی افواج نے آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے نام پر دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ محض مقبوضہ ریاست تک محدود نہیں بلکہ شمال مشرقی بھارتی ریاستوں ناگا لینڈ ، میزو رام ، منی پور ، تری پورہ ، میگھالہ ، ارونا چل پردیش میں بھی آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے نام پر بھارتی افواج کو کھلی چھوٹ دی جا چکی ہے ۔بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی صحت ، تعلیم اور غذائیت کی کمی عام بھارتی شہریوں کا مقدر بن چکی ہے ۔ اب تو بی جے پی کی حکمرانی والی بھارتی ریاستوں میں مسلمانوں کے مکانوں کو دن دیہاڑے بلڈوزروں سے مسمار کرکے فخر جتایا جاتا ہے کہ اگرد وسرے مسلمان بی جے پی کی پالیسیوں کو تسلیم نہیں کریں گے تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔بھارتی ریاست اتر پردیش کا وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ جو بلڈوزر بابا کے نام سے مشہور ہیں کھلے عام مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اعلانات کرتا پھرتاہے مگر بھارت کا نظام انصاف بے حس و حرکت اپنے اپ کو جنبش دینا مناسب نہیں سمجھتا ہے۔مسلمان بچیوں کو ان کے اسلامی اقدار یعنی حجاب کرنے سے سر عام روکاجاتا ہے اور پھر اس کیلئے بھارتی عدالتوں کا سہارا بھی لیاجاتا ہے ۔ان کیلئے تعلیم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں مگر بھارتی آئین خواب خرگوش کی طرح خراٹے بھرتا ہے اور مسلمان بچیاں کبھی ایک عدالت تو کبھی دوسری عدالت کا دروازہ کھٹکٹھاتی نظر آتی ہیں مگر نہ جانے کیوں انصاف ان سے جیسے روٹھا ہوا ہے۔صدیوں پرانی مساجد پر حملے اور انہیں مندروں میں تبدیل کرنے کیلئے جب انہی بھارتی عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے تو انصاف شیر کی مانند دہاڑنے لگتا ہے۔
بھارتی عدالتوں کے جج اپنی نوکریوں سے سکبدوش کیا ہوتے ہیں تو اعلی سرکاری عہدے ان کی دہلیز پر ان کے انتطار میں سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے رہنما سر عام بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے اعلانات کرتے ہیں مگر نہ بھارتی پولیس اپنے بازو ازمانے کی سعی کرتی ہے اور نہ ہی بھارتی عدالتیں سوموٹو لینے کی زحمت کرنا گورا کرتی ہیں۔ہاں بھارت کا نظام انصاف مسلمانوں کے خلاف نہ صرف فورا حرکت میں آتا ہے بلکہ بھارت کے قانونی ادارے بھی ہندتوا غنڈوں کے شانہ بشانہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں دیر نہیں لگاتے۔
پانچ لاکھ سے زائدبھارتی کسان اپنی حکومتوں کے ظالمانہ اور غیر انسانی رویوں کے ہاتھوں تنگ آ کر خود اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگا چکے ہیں ۔ بھارتی معاشرے میں عدم برداشت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ تحریر ، تقریر ، کھانے پینے اور اپنی مرضی کی رہائش جیسے بنیادی حقوق سے بھی مذہبی اقلیتوں کو محروم کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود بھارتی حکمران خود کو جمہوریت اور سیکولر اقدار کا چیمپئن قرار دیں تو اس سے بڑا مذاق اورکیا ہو گا ۔بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ۔
اگر چہ بھارت میں اعتدال پسند تجزیہ کاربھی اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ نقار خانے میں طوطے کی آواز کی مانند ہے۔زندگی کے تمام شعبوں میں عام بھارتی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت مظالم سہہ رہے ہیں مگر اس ضمن میں سب سے زیادہ نچلی ذات کے ہندوں کے خلاف یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے ۔ بھارتی معاشرت میں اپنے ہی ہم مذہب اچھوت ہندوں کو تو اس قدر مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جس کا تصور بھی کوئی عام انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔ لگ بھگ تیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل یہ بد قسمت بھارتی اچھوت اس قدر مظالم کا شکار ہیں کہ جس سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ہندو وں کی عبادت گاہوں یعنی مندروں تک میں نچلی ذات کے ہندوں کا داخلہ ممنوع ہے ۔
یہ اچھوت اعلی ذات کے ہندووں کے ساتھ بیٹھ کر نہ تو کھانا کھا سکتے ہیں اور نہ ہی اس گلاس میں پانی پی سکتے ہیں جو اونچی ذات کے ہندووں کیلئے مخصوص ہے۔جس کے ثبوت کیلئے یہ کافی ہے کہ چند برس قبل بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کی خاتون رکن کماری سلیجا بھارتی ریاست گجرات میں واقع سومنات مندر پوجا کیلئے گئی تھی ۔ تو داخلے سے پہلے مندر کے مرکزی دروازے پر موجود پجاری نے ان کی ذات پوچھی حالانکہ تب وہ بھارتی وزیر تھیں ۔جس پر انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ میں آئین سے وابستگی کے موضوع پر بحث کے دوران یہ خوف ناک انکشاف کرتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں کہا تھا کہ وہ اچھوت ضرور ہیں لیکن بہر حال ہندو ہیں اور اگر بھارتی وزیر ہوتے ہوئے ان کے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے تو عام اچھوتوں کی حالت زار کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
حکمران بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بھارتی ریاست کرناٹک کے موڈیگیرے سے بھارتی ممبرپارلیمنٹ کماراسوامی نے حال ہی میں کہا ہے کہ دلت برادری سے تعلق کی وجہ سے انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کمارسوامی نے جنہیں بی جے پی کارکنوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے صحافیوں سے گفتگو میں جذباتی انداز میں کہاکہ انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ انہیں مڈیگیرے میں ہونے والی ریلی میں شرکت کی اس لیے اجازت نہیں دی گئی کہ اس کا تعلق نچلی ذات دلتوں سے ہے ۔
بھارت ذات پات،چھوت چھات ،بھیدبھاو اور نسلی امتیاز سے بھر پور ملک کی عکاسی کرتا ہے۔جس پر دنیا کی خاموشی ایک انسانی المیہ ہی کہلائی گی۔لہذا 57برس قبل جنوبی افریقا کی سابقہ سفید فام حکومت کی نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے خلاف جہاں دنیا بھر میں آگاہی کا راستہ اپنا یا گیا تھا۔آج بھارت کے خلاف بھی یہی طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے،تاکہ اس حقیقت کی نفی کی جاسکے کہ عالمی برادری نے بھارت میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کی زندگی جہنم بنانے سے متعلق اس لیے اپنے ہونٹ سی لیے ہیں کہ بھارت اس کیلئے ایک پرکشش مالیاتی اور تجارتی منڈی ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ منڈی ہی انسانوں کو کھا جائے ،پھر افسوس اور دکھ کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔
Comments are closed.