مقبوضہ جموں وکشمیر کے بجائے اب کشیپ

تحریر: محمد شہباز

2 جنوری کو بھارتی دارالحکومت دہلی میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے شائع ہونے والی ایک کتاب J&K and Ladakh Through the Ages کی تقریب کے موقع پر کہا ہے کہ جموں وکشمیر کا نام کشیپ کے نام پر رکھا جا سکتا ہے۔ امیت شاہ نے کہا کہ بھارت کو آزادی ملی ہے لہذا چیزیں عوام کے سامنے اس کی اصل حالت میں پیش کی جائیں۔بھارتی وزیر داخلہ نے آرٹیکل 370 اور 35 اے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں دفعات بھارت کے اتحاد میں رکاوٹ تھیں۔ امیت شاہ کے مطابق ان دفعات نے نہ صرف جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو فروغ دیا،بلکہ بھارت کیساتھ اس کے تعلقات منقطع کیے اورعسکریت کو پروان چڑھایا۔ساتھ ہی بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ مودی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے عسکری تحریک میں کمی آئی ہے اور خطے میں ترقی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ “آرٹیکل 370 اور 35A، وہ آرٹیکلیز تھے جو جموں و کشمیر کے پورے بھارت کیساتھ اتحاد میں رکاوٹ تھے ۔البتہ مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی نے بھارت کے باقی حصوں کیساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں ترقی کو فروغ دیا۔امیت شاہ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بھارت کی تاریخ میں جموں و کشمیر کی ثقافتی اہمیت کے بارے میں بھی لب کشائی کرنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے خطے کا بھارتی ثقافت سے تعلق شنکراچاریہ، سلک روٹ اور ہمیش مٹھہ کے حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے جو جموں و کشمیر کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔امیت شاہ نے مزید کہا کہ کشمیری، ڈوگری، بلتی اور جھنکاری جیسی زبانوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت جغرافیائی سیاسی سرحدوں کے بجائے ثقافتی لحاظ سے منفرد ہے۔ ثقافتی اتحاد جموں و کشمیر سے کنیا کماری تک پھیلا ہوا ہے اور اس کی جڑیں صدیوں کے مشترکہ ورثے میں پیوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب پورے جموں و کشمیر میں بھارتی ثقافت کی موجودگی کو اجاگر کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ بھارت کی سرحدیں ثقافتی روایت سے متعین ہوتی ہیں، نہ کہ صرف جغرافیہ سے۔امیت شاہ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ جموں وکشمیر ہمیشہ سے بھارت کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور رہے گا۔ انہوں نے لداخ میں مندروں کی تباہی اور وادی کشمیر میں سنسکرت کے استعمال کو بھارتی تہذیب سے خطے کے گہرے تعلق کے ثبوت کے طور پر حوالہ بھی دیا۔امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ مذکورہ کتاب میں انگریزوں سے آزادی کے بعد کی گئی غلطیوں کا بھی ذکر موجود ہے، جن کی اب اصلاح کی گئی ہے۔قطع نظر اس کے کہ کشیپ ریشی مقبوضہ جموں وکشمیر کی تاریخ کا ایک اہم کردار رہ چکا ہے،جس سے انکار ممکن نہیں ہے ،جو ماضی قریب میں کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا رہا ہے کہ کشیپ ریشی سات مشہور رشیوں میں سے ایک ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ کے بیان کو تاریخ کے سیاق و سباق میں لینے اور پرکھنے کی ا ز حد ضرورت ہے ،کیونکہ موجودہ بھارتی حکمران ٹولہ جس کی قیادت مودی کررہا ہے،مقبوضہ جموں وکشمیر کے نام کی تبدیلی تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی بہت آگے جانا چاہتے ہیں۔اکھنڈ بھارت کا نعرہ تو RSS اور BJP ہی لگاتی ہیں اور پھر اس نعرے کے خاکوں میں رنگ بھی بھرنا چاہتی ہیں۔جس کے پہلے حصے کے طور پر 05اگست2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو بیک جنبش قلم ختم کرکے اس سے بھارت کے زیر انتظام دو علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا گیا۔ایک ایسی ریاست جو بھارت کے معرض وجود میں آنے سے بھی قبل موجود تھی ،آنا فانا اس کے حصے بخرے کیے گئے،اور عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔پچاسی لاکھ کشمیریوں کو ان کے گھروں میں مقید کرکے ان پر کئی ماہ تک فوجی محاصرہ مسلط کیے رکھا گیا۔جس ریاست جموں و کشمیر میں کل تک غیر ریاستی باشندوں کیلئے زمین یا مکان خریدنا شجر ممنوع تھا،آج اسی ریاست میں کشمیری عوام کی زرعی اور باغات پر مشتمل زمنیوں پر دھڑا دھڑا قبضہ کیا جاتا ہے اور ان کے مالکان حسرت بھری نگاہوں سے اپنی ان زمنیوں کو دیکھتے ہیں۔کشمیری مسلمان سرکاری ملازمین کو جھوٹے اور من گھڑت الزامات کے تحت ان کی نوکریوں سے برطرف کرکے غیر ریاستی ہندوئوں کی بھرتی کیلئے راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔05 اگست 2019 کے بعد سے لاکھوں غیر ریاستی باشندوں کیلئے ریاستی ڈومیسائل کا اجرا عمل میں لایا جاچکا ہے،تاکہ آنے والے کل میں جب بھی ریاست میں رائے شماری کی ضرورت محسوس کی جائے گی،تو فیصلہ بھارت کے حق میں آسانی کیساتھ ممکن بنایا جاسکے۔ 05 اگست 2019میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سے پہلے پورے بھارت کے رائے عامہ کو ہموارکیا گیا،گوکہ بھارتی میڈیا جو بی جے پی کی کارپوریٹ انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے’ اس سے پوری دنیا میں گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے،مگر گزشتہ چودہ برسوں میں بھارت میں جتنی بھی تبدیلیاں وقع پذیر ہوچکی ہیں،ان کیلئے پہلے بھارتی میڈیا میں ہی تشہیر کی جاچکی ہے،وہ چاہیے مقبوضہ جموں وکشمیر کی مخصوص حیثیت کی منسوخی ہو،تاریخی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر ہو،یا اب پورے بھارت میں مساجد اور درگاہوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کے اقدامات ہوں،بھارتی میڈیا نے ہی گلہ پھاڑ پھاڑ کر اس کیلئے راہ ہموار کی ہے۔اور اب جبکہ بھارتی وزیر داخلہ نے یہ در فتنی چھوڑی ہے کہ جموں وکشمیر کا نام کشیپ رکھا جاسکتا ہے،تو اس کیلئے پہلے سے پیپر ورک تیار کیا جاچکا ہوگا۔بی جے پی اور مودی نے موجودہ دور حکومت میں بہت کچھ کرنے کے خواب دیکھے تھے،مگر بھارتی عوام نے چار سو پار کا ہندسے کے رنگ میں بھنگ ڈالا ہے۔گوکہ بی جے پی آڑھائی سو سیٹوں تک محدود اور سمٹ کر رہ گئی،مگر اس کے باجود اس کے عزائم کمزور نہیں پڑے۔وہ پورے بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں بدلنے پر تلی ہوئی ہے۔جس کا مطلب بائیس کروڑ مسلمانوں کو دیوار کیساتھ لگانا ہے اور اس پر بڑی سرعت کیساتھ کام جاری ہے۔بھارت کا نظام عدل اپنا وزن BJP کے پلڑے میں ڈال چکا ہے اور وہ زعفرانی رنگ میں رنگ چکا ہے۔بھارتی ایجنسیو ں کو دھڑلے سے بی جے پی مخالفین کی زبان بندی اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں عوام کو خاموش کرانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ان حالات میں جموں و کشمیر کا نام بدل کر اگر کشیپ رکھا جاتا ہے تویہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی،کیونکہ مودی اور اس کے حواری بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے راستے میں بظاہر کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔جس بھارتی سپریم کورٹ کے جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال اور بھارتی مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزروں سے منہدم کرنے کے احکامات کو مودی اور اس کی بی جے پی جوتے کی نوک پر نہیں رکھتی،تو جموں وکشمیر کا نام بدلنے پر بھی اس سے قانونی موشگافیوں کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔


گوکہ05 اگست2019 کے اقدامات کے نتیجے میں اگر چہ بہت کچھ چھینا جاچکا ہے،اب صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے ۔اب اگر یہ بھی بدلا جاتا ہے تو اس کا مطلب پورے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ایک ہندو ریاست میں بدلنے کی تیاری کی جاچکی ہے۔جس کیلئے 05اگست2019 سے ریاست میں نت نئے قوانین کا نفاذ ، سینکڑوں ہندو مندروں کی از سر نو تذئیں و آرائش اور بحالی بھی بی جے پی کے منصوبوں میں سے ایک بڑا منصوبہ شامل ہے۔گوکہ بی جے پی کے عزائم میں کچھ رکاوٹیں ابھی بھی کار فرما ہیں،جن میں سے ایک اہل کشمیرکی بھارت کے خلاف مزاحمت سے دستبردار ہونے سے انکار اور ایٹمی پاکستان بھی بھارتی عزائم میں ایک بڑی رکاوٹ ہے،ورنہ مودی پندرہ برسوں سے شاید انتظار نہ کرتے۔ کشمیری عوام سوا پانچ لاکھ شہدا کے وارث اور ان کی قربانیوں کے امین ہیں۔مگر اہل کشمیر نہتے اور مظلومانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے جاچکے ہیں۔ان حالات میں مذمت سے بڑھ کر کچھ کرگزرنا ناگزیر ہے۔ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ کشمیری عوام کبھی بھارت کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالیں گے اور بھارتی حکمران بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ کشمیری عوام کو بھارتی نہیں بناسکتے،آئندہ بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کشمیری عوام بھی گوشت پوست کے انسان ہیں،وہ بھی درد محسوس کرتے ہیں۔ان کے زخموں پر پھاہا رکھنا ضروری ہے۔تاکہ وہ خود کو بھارتی طاقت کے مقابلے میں منظم اور اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کرسکیں۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔بھارتی حکمرانوں باالعموم اور مودی و بی جے پی سے بالخصوص خیر کی توقع رکھنا عبث ہے،جن کی اٹھان ہی انسانیت دشمنی پر رکھی گئی ہو۔بی جے پی نے اگر RSSکی کوکھ سے جنم لیا تو RSS ہٹلر سے متاثر ہے ۔ ا ن حالات میں ریاست جموں وکشمیر کے تینوں حصوں مقبوضہ جموں وکشمیر،آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ پوری دنیا میں مقیم کشمیری اور ان کا ڈائیسپورا رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،تاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی تاریخی اہمیت یا اس کے صدیوں پرانے نام کو بدلنے کی بھارتی حکمران ٹولے کی کوششوں کو روکا جاسکے۔پوری دنیا میں حالات بڑی تیزی کیساتھ وقع پذیر ہورہے ہیں۔صہیونی اسرائیل سرزمین فلسطین بالخصوص غزہ کو ملیا میٹ اور 07 اکتوبر2023 سے لیکر آج تک 50000 سے زائد فلسطینی خواتین ،بچے ،جوان اور بزرگ شہید اور ایک لاکھ دس ہزار سے زائد کو زخموں سے چور کرچکا ہے ،بھارت بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں مقبوضہ فلسطین میں صہیونی اسرائیل کی آباد کار پالیسی پر عمل پیرا ہے۔دونوں کشمیری اور فلسطینی عوام کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔دنیا نے خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔اس تناظر میں کشمیری عوام جہاں بھی ہوں ،خود ہی رائے عامہ کو منظم اور اپنے زور بازو میں قوت بھی پیدا کرنا ہوگی ،تب ہی مودی اور اس کے ٹولے کو جموں وکشمیر کا نام بدلنے اور جموں وکشمیر کو ہندتوا رنگ میں رنگنے سے روکا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.