تحریر عمران اعظم : خاور گھمن، صحافت کا ایک معتبر نام،
گھمن گھیریاں کیساتھ صحافت کے افق پر طلوع ہوا اور انتھک محنت اور صلاحیتوں سے ترقی کی زینے چڑھتا گیا، انگریزی روزنامہ ڈان کیساتھ وابستہ رہا اور پھر 92 نیوز اور دنیا نیوز میں بطور بیورو چیف اور تجزیہ کار ذمہ داریاں نبھائی، اس وقت بیورو چیف اے آر وائی نیوز اسلام آباد ہیں لیکن اب ریاست اور حکومت وقت نے ایک مقدمے کے اندراج کی صورت میں انہیں غدار وطن کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے، ان سے خطا یہ ہوئی کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز،آصف زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور، مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی سے عمران خان کو زیادہ دیانتدار اور پاکستان کے عوام کیساتھ مخلص لیڈر سمجھتے ہیں.
خاور گھمن عمران خان کے فین کلب کاممبرنہیں، بلکہ ایک زیرک صحافی ہے، ان کی عمران خان کے حوالے سے رائے غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن وہ کبھی بھی بدیانتی پر مبنی یا کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں ہو سکتی، میں ان کیساتھ اپنے چند سالوں کے تعلق کی بنیاد پر پورے وثوق کیساتھ یہ کہہ سکتا ہوں،پیپلز پارٹی کو لیکر ہمیشہ ان کیساتھ دلچسپ بحث ہوتی لیکن کبھی بھی ان کی کسی دلیل سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے رہنماوں سے کوئی ذاتی عناد رکھتے ہیں.
دوسری جانب نون لیگ کا وطیرہ رہا ہے کہ صحافیوں کو ساتھ ملاو، اچھے عہدوں کا لالچ دیکر اپنے قصیدے پڑھاو اور اقتدار میں آتے ہی کچھ کو نواز کر باقیوں کو بھی راستہ دکھا دو،موجودہ وفاقی وزیر فہد حسین سے لیکر سابق چیئیرمین پیمراابصار عالم اور مشتاق منہاس تک درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں، خاور گھمن صحافیوں کی اس قبیل سے ہر گز نہیں، اس لیے نون لیگ نے دوسرا طریقہ اختیار کیا. خاور گھمن کے خلاف غداری کے مقدمے سے پہلے ریاست کے آقاوں کو نون لیگ کے قائدین سے لیکر فضل الرحمان تک سب کو کٹہرے میں لانا ہو گا، کیونکہ خاور گھمن کا تو شاہد ایک جملہ بھی ایسا نہیں ہو گا جس پر غداری کی دفعات لگ سکیں، لیکن ان رہنماوں کی تقرریں سنیں تو آرٹیکل سکس سے کم کوئی دفعہ ملے گی نہیں.
حکومت اور اداراں سے گزارش ہے کہ ردعمل میں اپنے حواس پر قابو رکھیے، شہباز گل اور خاور گھمن میں فرق سمجھیے، شہباز گل کی بات سے مجھے بھی اختلاف ہے، فوج کے رینکس میں حکم عدولی کی ترغیب دینا کسی طور درست نہیں، لیکن خاور گھمن پر صرف زبان بندی کے لیے غداری کا مقدمہ کیوں؟؟
وفاقی حکومت اور اس کی لائق پولیس شہباز گل کو اٹھا کر شادیانے بجاتے ہوئے تھانے پہنچی تو خیال آیا کہ ملزم کے موبائل تو گاڑی میں ہیں اور گاڑی اور ڈرائیور تو ہم نے چھوڑ دئیے، پھر ڈرائیور ملا نہ گاڑی اور خفت مٹانے کے لیے ڈرائیور کی بیوی اور دس ماہ کی بچی کو اٹھا لائے، ماں کو کار سرکار میں مراخلت پر جیل بھیج دیا اور معصوم بچی ماں کے بغیر بلکتی رہی لیکن پھر سوشل میڈیا پر ہونے والی چھترول نے ہوش ٹھکانے لگا دئیے،اب ڈرائیور مل رہا ہے نہ شہباز گل کے موبائل فون، خاور گھمن کے کیس میں حکومت کا حال اس سے بھی برا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آج ان کی ایک ہفتے کے لیے عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے اس کا آغاز کر دیا ہے.
Comments are closed.