مولانا غلام نبی نوشہری،ایک عہد ساز شخصیت کیساتھ خصوصی نشست
محمد شہباز وانی، عکاسی شجر خان ،شیخ عبد الحمید )
ریاست جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد قربانیوں کی لازوال داستان ہے۔پون صدی سے یہ جنگ جاری ہے، بھارت کا ظلم رکتا ہے نہ اہل جنوں کی جدوجہد۔ہمارے مستقبل کے لئے اپنا آج قربان کرنے والوں نے کب سوچا ہوگا کہ یہ جدوجہد طویل ہوجائے گی، کامیاب بھی ہوگی یا نہیں؟ انہیں بس ایک ہی دھن تھی کہ اپنے رب کے راستے میں منزل کی طرف جاتے جاتے جان بھی جاتی ہے تو پرواہ نہیں۔مولانا غلام نبی نوشہری صاحب کا شمار بھی اسی قافلہ حق کے حدی خوانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی پوری زندگی اللہ کی دین کے غلبے اور جموں وکشمیر کی آزادی کے لئے وقف رہی ہے۔ ریاست کے طول وعرض میں یہ پیغام لے کر گھومے۔
مولانا غلام نبی نوشہری صاحب جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و مرکزی رہنما رہ چکے ہیں ۔کشمیر کے نائب امیر رہ چکے ہیں ،اسمبلی ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔بیس کیمپ آزاد کشمیر میں آکر حزب المجاہدین کے امیر بھی رہے ہیں۔کشمیر کمیٹی کے ممبر بھی ہیں اور اس وقت ھیتہ الغاثیہ( ریلیف ٹرسٹ) کے سربراہ ہیں ۔محترم موصوف کافی کمزور اورعلیل ہیں،انہوں نے ہماری درخواست پر تحریک آزادی کشمیر کے مختلف گوشے بیان کئے ہیں جو ہم اختصار کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
سوال: امیر محترم !آپ اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟
جواب: 1958 ء میں نے مولوی عالم اور مولوی فاضل کی ڈگری مکمل کی ۔ پھرمیں دارلعلوم دیو بند چلاگیا۔وہاں انتظامیہ نے میری اسناد دیکھ کر کہا کہ آپ کو یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ ہم آپ کو کچھ سولاات دیں گے آپ ان کے جوابات د یں۔جوابات دینے کے بعد انہوں نے مجھے فاضل دینیات کی سند عطا کی ۔
سوال: مولاناصاحب آپ جماعت اسلامی کے ساتھ کیسے وابستہ ہوگئے؟
جواب: دینی تعلیم مکمل ہونے کے بعد میں واپس سری نگر آیا۔ ایک دوست نے کہا کہ یہاں جماعت اسلامی والے دینی کام کررہے ہیں ان سے رابطہ کریں۔یہ 1965 ء کی بات ہے ،بانی امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر سعد الدین ؒ صاحب سے ملاقات کے لئے میں نواب بازار گیا۔ وہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں محترم سعدالدین صاحب ؒ تشریف فرما تھے ۔سلام ودعا کے بعد انہوں نے پوچھاکیسے آنا ہوا ؟میں نے اپنی اسناد دکھائیں۔وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہاں ملازمت کی بات نہیںہے۔ہم دین کی خدمت کررہے ہیں اگرآپ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں توہمیں بڑی خوشی ہوگی۔انہوں نے بات ایسے انداز میں کی کہ جیسے نقش برسنگ ہوگئی۔انہوں نے مجھے نواب بازار میںجوجماعت اسلامی کی پہلی اور مرکزی درسگاہ تھی عربی مضمون کا استاد مقرر کیا ۔اس ادارے کے پرنسپل مولانا حکیم غلامی نبی ؒؒ تھے۔وہ بہت بڑے عالم دین تھے۔ فاضل دیو بند تھے ۔میں نے بڑی دلچسپی اور محنت کے ساتھ کام کیا اور تین چار سال کے بعد مجھے اس مدرسے کا پرنسپل مقررکیاگیا۔حکیم صاحب نے جماعت اسلامی کی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ان دوران مجھے خطبات اور رسالہ دینیات پڑھنے کا موقع ملا۔یہ کتابیں پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے اب مجھے کلمہ توحید سمجھ میں آیا ہے۔شکوک وشبہات دور ہوئے اور میں جماعت اسلامی کا کارکن بن گیا۔کتابوں سے بڑھ کر امیر جماعت اور ان کے ساتھیوں کے اعلیٰ کردار اورعملی زندگی سے میں کافی متاثر ہوا۔
سوال: آپ جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی کے ممبر کب اور کیسے بنے؟
جواب:یہ اللہ کا فضل وکرم تھا کہ میری کارکردگی دیکھ کر جماعت اسلامی نے مجھے ریاستی اسمبلی کا لیکشن لڑنے کے لئے منیڈیٹ دیا۔یہ 1972 ء کی بات ہے۔میرا مقابلہ کانگریس کے ایجوکیشن منسٹرنورمحمد شیخ جو کٹر کیمونسٹ تھا،موہن کشن تکو جو سیشن جج اور شیخ عبداللہ کا وکیل بھی رہا تھا اور دیگر پانچ چھ افراد کے ساتھ تھا۔اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ میں کامیاب ہوگیا۔جماعت اسلامی کے پانچ ارکان اسمبلی ممبران منتخب ہوئے اور یہ میری زندگی کاایک نیا باب نیا دور شروع ہوا۔جب ہم اسمبلی میں گئے تو بارہا بہت تنگ آگئے کیونکہ وہاں جب کوئی تقریب ہوتی تھی تو شراب کا دور چلتا تھا،گانا بجانا اور بے ہودہ ڈانس ہوتا تھا۔ہم پانچ ارکان الگ کمرے میںجاکر بیٹھے تھے اور سوچتے تھے کہ اس ناسور کو کیسے ختم کریں۔کانگریس کی حکومت تھی ،میر قاسم وزیر اعلیٰ تھا ۔
سوال:جماعت اسلامی کا کردار ہمیشہ بے داغ رہا۔سنجیدہ لوگ خاصکر نوجوان اسکی طرف متوجہ ہوئے اور جماعت اسلامی ہی آزادی کا نعرہ بھی بلند کرتی رہی۔سوال یہ ہے کہ جب تحریک آزادی نے عسکریت کا روپ دھار ا تو جماعت اسلامی کا کردار کیارہا؟
جواب:حق بات یہ ہے کہ کشمیری عوام روزِ اول سے ہی آزادی چاہتے تھے ،آزادی کا جذبہ ہر ایک کے دل میں موجزن تھا چاہے وہ جماعت اسلامی کے ساتھ تھا ،یا نیشنل کانفرنس یا کانگریس یاکسی اور تنظیم کے ساتھ تھا۔انڈیا کے ساتھ نفرت اور پاکستان کے ساتھ محبت ہردل میںتب بھی موجود تھی اور آج بھی موجود ہے۔اس لئے الحاق پاکستان ہی آزادی سمجھا جاتا تھا۔اب آپ کا سوال کہ عسکریت میں جماعت اسلامی کا رول کیارہا؟یہ ایک تلخ تجربہ ہے لیکن حقیقت ہے کہ عسکری تحریک جماعت اسلامی نے شروع نہیںکی عسکری میدان میں شمولیت جماعت اسلامی کا شورائی اور متفقہ فیصلہ نہیں تھا۔لیکن ہمارے ارکان کی ایک بڑی تعداد عسکریت سے وابستہ ہوچکی تھی۔
سوال:جب حزب المجاہدین کے پہلے چیف کمانڈر محترم احسن ڈار صاحب نے اعلان کیا کہ حزب المجاہدین جماعت اسلامی کا عسکری بازو ہے اور یہ خبر اخبارات کی شہ سرخی بنی تو اسوقت جماعت اسلامی نے چپ سادھ کیوںلی؟
جواب:جب احسن ڈار صاحب نے اعلان کیا اسوقت جماعت اسلامی کی ساری مرکزی قیادت جیلوں کے اندر بند تھی۔میں قائمقام امیر جماعت تھا اور شوپیاں میں زیر زمین تھا،میں نے سوچا کہ اگر اسکی تردید کروں تو اپنے ہی لوگ جماعت کو ختم کریں گے اگر تسلیم کروں تو تنظیم کے اصولی موقف کی خلاف ورزی ہوگی۔میں بھی جذباتی تھا لیکن خاموشی اختیار کی۔
سوال:محترم نوشہری صاحب !جب عسکریت میں شمولیت جماعت اسلامی کا متفقہ فیصلہ نہیں تھا تو آپ قائمقام امیر جماعت ہوکر ،محترم غلام محمد صفی صاحب امیر ضلع بلکہ قیم جماعت ہوکر ،صلاح الدین صاحب امیر ضلع ہوکر سرحد پار کرکے عسکریت میں کیوں شامل ہوئے ،کس نے اجازت دی تھی؟
جواب:یہ ہمارے جذبات تھے ،حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں شروع سے ہی دوسوچ کام کررہے تھے ۔ایک یہ کہ ہم صرف دعوت دین کا کام کریں گے اوردوسرا یہ انقلابی تحریک چلاکر کشمیر آزاد کرنے کے بعد دین کا نظام قائم کیاجاسکتا ہے۔ دوسری سوچ سید علی گیلانی ؒ صاحب کی تھی۔نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ تھا جو گیلانی صاحب کے ساتھ تھا۔ہم سب گیلانی صاحب کی سوچ سے اتفاق رکھتے تھے۔میں مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شامل ہوتا تھا وہاں کبھی اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوا البتہ سب لوگ یہی چاہتے تھے کہ کسی طرح انڈیا کے ظالمانہ قبضے سے نجات مل جائے۔
سوال:مولانا صاحب! ابتداء میں ہماری عسکری جدوجہد زوروں پر تھی بجائے اس کے کہ یہ مزید زور پکڑتی روز بروز کمزور ہوتی گئی اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
جواب:وانی صاحب ! میں عرض کروں گا کہ جب مقبوضہ کشمیر کے بانی امیر جماعت اسلامی محترم سعد الدین ؒ صاحب پاکستان آئے انہوں نے شہید ضیاء الحق ؒ کے ساتھ ملاقات کی جو اس وقت پاکستان کے آرمی چیف اور صدر پاکستان بھی تھے۔سعد الدین ؒ صاحب کے ہمراہ مولانا عبدالباری ؒ بھی تھے جو اس وقت آزاد جموں وکشمیر جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ ضیاء الحق نے سعد الدین ؒ صاحب سے کشمیر کے حالات معلوم کرکے کہا کہ ہم آپ کے مدد کرنا چاہتے ہیں۔آپ جوانوں کو یہاں بھیجیں ہم ان کو عسکری تربیت دیں گے۔سعد صاحب نے پوچھا کہ اگرہم اپنے بچوں کو یہاں بھیجیں گے، آپ تربیت اور اسلحہ دے دیں گے لیکن اگر انڈیا کے ساتھ جنگ کرنی پڑی تو کیا آپ جنگ لڑیں گے۔ضیاء الحق ؒ نے کہا کہ ہم آپ کی مدد سیاسی، سفارتی اور اخلاقی محاذ پر کریں گے لیکن عسکری محاذ پر
آپ کو خود لڑنا ہوگا۔سعد صاھب نے جواباََ کہا کہ پھر تو یہ ہمارے لئے ممکن نہیں ۔یہ سن کرضیاء الحق نے اپنے PA سے کہا کہ مولانا صاحب ٹھنڈے علاقے سے آئے ہیں ان کو گرم گرم قہوہ پلا ئیں۔لیکن سعد الدین صاحب قہوہ پی کر بھی اپنی ہی بات پر جمے رہے۔
یہ کہانی محترم سعد الدین ؒ صاحب نے کشمیر پہنچ کر مجلس شوریٰ میں سنائی، اسی لئے جماعت اسلامی عسکری میدان میں آنے سے ہچکچا رہی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ جب جہاد شروع ہوا تو سعد صاحب نے بھی اپنا بیٹا راہ جہاد میں بھیجا۔پاکستان آج بھی اسی بات پر قائم ہے اور وہ تین محاذوں پر مدد کررہا ہے۔ چونکہ ہمارے پاس باضابطہ کوئی فوج نہیں تھی،پھر9/11کا واقعہ ہوا ۔۔پاکستان پر شدید دبائو آیا جس کے نتیجے میں ہماری عسکری تحریک کمزور پڑ گئی۔
سوال:مولانا صاحب آج ہماری تحریک آزادی جس کمزور پوزیشن میں ہے اس کو طاقت بخشنے اور زندہ رکھنے کے لئے ہمیں کون سے تدابیر کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب:میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تحریک کو زندہ رکھنا ہے، ضروری نہیں ہے کہ بندوق اٹھا کر ہی چلیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں، ہمیں اپنے بچوں اور جوانوں کے ذہن سازی کرنی ہے، دین سکھانا ہے ،ہمیں نظام تعلیم مفید بنانا ہے اور مضبوط صف بندی کرنی ہے اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع کرنا ہے۔ دنیا میں واحد مسلمان ملک پاکستان ہے جو ہماری مدد کررہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔
سوال :محترم مولانا صاحب!آپ اس تحریک کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب:میںقطعاََ مایوس نہیں ہوں میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ تحریک زندہ ہے، زندہ رہے گی اور زندہ رہنے کے لئے ہے، یہ کبھی مٹے گی نہیں اس کے پیچھے معصوم لوگوں کا خون ہے، بے حد وحساب قربانیاں ہیں،اللہ ان کو کبھی ضائع نہیں کرے گا البتہ ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس کا ہمیں احساس ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی حالات کے خرابی اور عالمی دبائو کی وجہ سے ہماری مدد عسکری سطح پر فی الوقت نہیں کرسکتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان جس عظیم مقصد کیلئے معرض وجود میں آیا تھا یہ اسی مقصد اور نظریے پر استوار ہو۔۔
Comments are closed.