میرِ کارواں ہے مثلِ ماہتاب و آفتاب

تحریر: امتیاز یٰسین، فتح پور

قوموں کی با وقار زندگی اور روشن مستقبل کے لئے ایک اچھی قیادت کے کردار سے انکار مفر نہیں۔قوم کے اجتماعی مقصد کے حصول اور جملہ مصائب و آلام کے گرداب سے چھٹکارا حاصل کرنے،زندگیوں کو سماجی و مذہبی اصولوں کے مطابق گذارنے کے لئے تگ و دو کرنے والے نجات دھندہ اورفکری تاثیر وبا صلاحیت کردار کے مجموعہ کو قیادت کہتے ہیں۔

قوموں کی زندگی میں ایسے مدبر،ولولہ انگیز،جذبہ محبت و خدمت سے سرشار قیادت کا ہونا ایک نعمتِ خداوندی سے کم نہیںجو ان کی با مراد اور کامیاب سمت کا تعین کر دیتی ہے۔لیڈر شپ کی استعداد کار پر ہی اقوام کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔برِ صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایسا ہی کردار ایک مردِ آہن نے ادا کیا جس کی بصیرت افروز قیادت سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو آزادی کی وہ دولت نصیب ہوئی جو صدیوں کی جدوجہد کے بعد قوم کا مقدر بنا کرتی ہیں لیکن تاریخ ایسے واقعات پیش کرنے سے قاصر ہے کے کسی زیرک لیڈر نے مختصر ترین وقت میں مملکت کا قیام یقینی بنا دیا ہو۔یہ ہیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ۔۔

 انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات 1904 میں بمبئی میں کانگرس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے کیا۔ آپؒ ایک مدبر، باحوصلہ، دور اندیش ، بااصول سیاست دان،عہد ساز شخصیت ، کہنہ مشق سیاسی خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسانی خوبیوں کا خوبصورت مرقع تھے ۔یہ عظیم رہبر ورہنما 1913سے لیکر 14اگست1947تک آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے جس کی قیادت میں مسلم قائدین قیام پاکستان کی تحریک کو پروان چڑھاتے رہے۔

۔1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگرس کے مابین میثاق لکھنو کو مرتب کرنے میں قائد کا کردار سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے ۔ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی و آئینی حقوق کے لئے انہوں نے شہرہ آفاق چودہ نکات بھی پیش کئے جس سے تصور پاکستان کی ابتدا ہوئی۔1940میں آپؒ کی ہی قیادت میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی جس کا مقصد برِ صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا مطالبہ تھا۔

آپؒ جیسی فہم و فراست اور دوراندیش ،احساس ذمہ دار،تاریخ سازاور ہمہ جہتی غیر معمولی اوصاف کی آئینہ دار شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں جو دنیا کے نقشے بدلتی اور اپنی قوموں کی تاریخ کا دھارا موڑتی ہیں۔ آپؒ آزاد ریاست کے حصول میں ،عیار مخالفین ،انگریزوں اورہندوؤں کے آگے آہنی اور سیسہ پلائی دیوار تھے اور ہر محاذ پر انہیں عبرت ناک شکست دی ۔ ان کی مدبرانہ سوچ و صلاحیت کے دشمن بھی معترف و گرویدہ تھے۔

یہ حقیقت شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اگر برِ صغیر کے مسلمانوںکو قائد کی ولولہ انگیز قیادت میسر نہ آتی آج بھی انگیرزوں کی غلامی کے طوق میں جکڑے اور ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہوتے۔ قائد اعظمؒ کا اسلام سے محبت و عقیدہ کی پختگی کا اندازہ آپؒ کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت و آئین کیا ہو گا ؟تو میں کہتا ہوں میں کون ہوتا ہوں اس کا میکانزم بنانے والا۔مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے چودہ سوسال پہلے قران مجید میں رہنمائی اور مدینہ کی ریاست کی صورت میں مثال موجود ہے۔

 آپؒ کے ایک اور شہرہ آفاق جملے ناقدین کے اس بیان کی تردید کرتے ہیں جو آپ پر سیکولر ہونے کا الزام لگاتے ہیں آپؒ نے فرمایا وہ کون سا رشتہ ہے جس میں مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں؟وہ کونسی چٹان ہے جس پراس کی ملت کی عمارت استوار ہے؟وہ کون سا لنگر ہے؟جس میں امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ۔وہ رشتہ،وہ چٹان ،وہ لنگر اللہ کی کتاب قران مجید ہے ۔

 بہرصورت قیام پاکستان آپؒ کا ایک ایسا روشن کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔25دسمبر کو ملت اسلامیہ بانی پاکستا ن قائد اعظمؒ کی ملک و ملت کےلئے گرانقدر خدمات و سیاسی کارناموںکو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کا 145 یومِ ولادت انتہائی جوش و خروش سے منا رہی ہے۔ اللہ پاک ان کی روح کو کروٹ کروٹ خلد آشیاں کرے۔

Comments are closed.