گزشتہ عام انتخابات کے دوران ایک بڑی سیاسی جماعت کی ایک کارنر میٹنگ میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں کافی بڑے نام موجود تھے ۔ وہاں پر موجودہ ایک لیڈر جو کہ اب پارلیمنٹ کا حصہ بھی ہیں کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم کھمبے کو بھی ٹکٹ دینگے تو عوام اسے ووٹ دے گی ۔ اور شائد ایسا ہی ہوا۔ کھمبے ہی شائد پارلیمنٹ پہنچے جن کا حال کے الیکٹرک کے کھمبوں سے بھی برا ہے۔
جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو ہر کام لیے ایک غیر منتخب شخص مشیر مقرر کرنا پڑتا ہے ۔بجلی کے کھمبوں پر بیٹھے کووں کی طرح ان سیاسی کھمبوں پر چڑھ کر پارلیمنٹ دیکھنے والے بھی عوام پر وہی عنایات کر رہے ہیں جو کووے نیچے گزرنے والوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔
موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتا ہوں تو اس سارے منظر نامے میں مجھے سیاستدان، اشرافیہ اور کچھ طاقت کے بھوکے تونظر آتے ہیں لیکن عوام اور عوامی مسائل اور ان مسائل کا حل کہیں نظر نہیں آتا ۔ کبھی فرد واحد کے لیے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے تو کبھی عوامی مینڈیٹ کو باپ کی جاگیر سمجھ لیا جاتا ہے ۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ عوامی مینڈیٹ صرف امانت کے طور پر دیا جاتا ہے۔
لیکن حقیقت تو یہ بھی ہے کہ عوام اپنا مینڈیٹ امانت دینے کی بجائے چند ٹکوں کے عو ض بیچ ڈالتے ہیں اور پھر ساری زندگی کھوکھلے دعووں اور طفل تسلیوں کے سہارے جینے کو اپنا مقدر سمجھنے کے ساتھ ساتھ خود کو بری الزمہ بھی سمجھتے ہیں ۔ خیر عوام کو فی الوقت معصوم تصور کر لیتے ہیں کیونکہ سیاستدانوں نے کبھی تعلیم کو ترجیح ہی نہیں دی تاکہ عام آدمی اپنے مستقبل کے بارے سمجھدار طریقے سے فیصلے ہی نہ کر سکے ۔
مہذب قوموں میں الزام کے بعد ہی وہاں کے لیڈرز خود کہ صاف شفاف ثابت کرنے کی غر ض سے تمام عوامی عہدے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میرے پیارے ملک پاکستان میں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے ۔ یہاں تو عدالت بھی اگر اٹھا باہر پھینکے تو نہ صرف عدالت کو آڑے ہاتھوں لے لیا جاتا ہے بلکہ طاقت کا سر چشمہ رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے نہ جانے کب یہ سمجھ سکیں گے کہ جمہوریت عوام کے لیے ہوتی ہے اور عوام کی ہوتی ہے ۔
کب یہ جمہوریت خواص تک محدود ہو گئی اس بات کو سوچنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ۔ اپوزیشن ہمیشہ ملکی معاملات میں بہتری کا کردار ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اپوزیشن ایک پریشر گروپ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ کوئی عوامی جدو جہد کے نتیجے میں دولہا بن جاتا ہے تو کسی کے کرپشن کیسز میں کمی آ جاتی ہے ۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے حقیقی اپوزیشن وردی پہن کر آ پیش ہو جاتی ہے ۔ لیکن اس بار تو لگتا ہے کہ اپوزیشن نام کی چیز ہی کوئی نہیں اس ملک میں ۔ بس سب اپنا اپنا راگ آلاپ رہے ہیں ۔
اس طاقت کے کھیل میں پاکستان کی عزت تک کا خیال نہیں کیا جا رہا ۔ پوری دنیا میں پھیلے پاکستان دشمن نہ صرف خوش ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کو مزید کمزور کرنے اور توڑنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جستجو تیز کر رہے ہونگے ۔ الگ الگ صوبوں میں عوام کو فتح کرنے کے بعد اس رعایا کا سوچنے کی بجائے باقی صوبے فتح کرنے کی منصوبہ بندی کرنے پہ محنت ہو رہی ہے اور صدقے میں اس عوام کے جو کبھی میوزک اور کبھی بریانی کے چکر میں ان کھلاڑیوں ، زرداریوں اور شریفوں کے کارناموں کو سننے کے لیے حاضر ہو کر ان کی سوچوں کو مزید قوت بخشتے ہیں ۔
الیکشن میں کھمبے کھڑے کر کے جیتنے کا دعوٰں کرنے والے اس بات کا یقین بھی رکھتے ہیں کہ وہ تب تک بادشاہت کا خواب چکنا چور نہیں ہونے دینگے جب تک سکولوں میں گدھے بندھے رہیں گے اور بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اوزار رہیں گے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو مرتے ہووٗں کے مسیحا بننے کی بجائے سیاسی بیان بازی سے کام لینا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک زندہ شخص کی کوئی وقعت نہیں اور مرنے والا لاکھوں کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ یہ لوگ ذاتی مسائل کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ ان مسائل پر بات کرنے کے لیے عوام کے پیسوں سے کروڑوں روپے خرچ کر کے پارلیمنٹ کے سیشن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کا نعرہ لگانے والے جمہور کی حالت پر رحم تک نہیں کھاتے ۔ آئین کی حفاظت کی آڑ میں کالے دھن کی حفاظت پر تمام تر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔ یہ لوگ کالا باغ ڈیم جیسے اہم قومی مسئلے پر تو ایک ٹیبل پر آتے نہیں لیکن کرپشن کے خلاف آواز کو روکنے کے لیے بابانگ دہل اعلان جنگ کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک پولیس ان کے گھر کی باندھی ہے اور آئین انکے کرتوتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی ایک کتاب ۔
کوئی ترقی کے نام پر، کوئی ملکی سلامتی اور بقاء کے نام پر اور کوئی مذہب کے نام پر بے وقوف بناتا ہے ۔ جھوٹے وعدوں پر عوامی ووٹ لے کر آنے والے یہ لوگ احسان فراموشی کی تمام حدیں پار کرتے ہیں اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی بجائے عوام کو کوئی نئی ترکیب جڑ دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اپنے بچے ملک کے مہنگے ترین سکولوں سے تعلیم حاصل کریں جبکہ غریب عوام کے بچوں کے لیے سکول بناتے ہیں تو وہ بھی صرف کاغذوں پر ۔ اگر کوئی سکول حقیقت کا روپ دھار بھی لے تو اس سکول کے میدان میں انہی لوگوں کی بھینسیں باندھی جاتی ہیں یا پھر بھینسوں کے لیے چارہ اگایا جاتا ہے۔
خود یہ لوگ بخار چیک کروانے بھی بیرون ملک جائیں اور عوام کے لیئے انگریز کے دور سے قائم ہسپتالوں میں ڈاکٹر بھی بمشکل میسر ہو ۔ کوئی غریب حالات سے تنگ آ کر کوئی چھوٹا جرم بھی کرے تو ساری زندگی جیل میں ےا پھر کسی وڈیرے کے نجی قید خانے میں ۔ اور یہ سفید پوش کہلوانے والے سر عام عزتیں لوٹیں ، ملک کو اربوں کے ٹیکے لگائیں اور چاہے ملکی سلامتی بھی داوٗ پر لگا دیں لیکن ان پر بات کرنا بھی غیر اخلاقی، غیر آئینی اور حد سے تجاوز سمجھا جاتا ہے ۔
یہ معززین عوامی ووٹ ، ملکی دولت اور عدالتی فیصلوں کو ہمیشہ صرف اپنے حق میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے تمام تر قومی وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔ یہ کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرنے والے دوران سفر غریب کی سائیکل دیکھنا بھی غیر مناب سمجھتے ہیں اور انکی گزرگاہوں کو یا تو یہ کہہ کر بند کر دیا جاتا ہے کہ ’یہ شارع عام نہیں ہے ‘ یا پھر جب تک یہ گزر نہ جائیں عام عوام کودیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے ووٹ کے بدلے انکو دو وقت کی روٹی بھی عزت کے ساتھ دینے سے قاصر ہیں اور خود کے دسترخواں دس سے زائد قسم کے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔
نشے سے مرتے اور جرائم کی دنیا میں خوار ہوتے اقبال کے شاہین، گندے نالوں کا پانی پیتے بچے، اکھڑتی سانسوں کے ساتھ مسیحا کے منتظر مریض، عورتوں کی لٹتی عصمتیں ، سیلاب کے پانی میں بہتے بزرگ، اور قانون کے محافظوں کو ذاتی غلام بنے دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ کیوں کہ میں خود کو ایک پاکستانی سمجھتا ہوں اور کسی حد تک اس بات پر فخر بھی محسوس ہوتا ہے۔
اچنبے کی بات یہ ہے کہ یہ خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والے سیاسی کھمبے یہ نہیں جانتے کہ پاکستانی عوام کا نمائندہ ہونے کے لیے پاکستانی ہونا بھی ضروری ہے تو پھر مجھے ایک سوال ہمیشہ گھیرے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اگر بھوک ، افلاس، سیلاب اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کروانے والے، پرائم ٹائم کے ٹاک شوز میں آنے کے شوقین، بے حس، عیاش، کرپٹ، بد اخلاق ، بھی پاکستانی ہیں تو عوام کون ہیں
Comments are closed.