چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ اپوزیشن اور پی ڈی ایم میں شریک دیگر جماعتوں کو عدم اعتماد پر قائل کریں گے۔ ان کے اس بیان کے بعد، کوئی جل گیا، کسی نے دعا دی۔ خاص طور پر اپنی وزارت کے داخلی معاملات سے بے خبر وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب سب سے زیادہ خوش ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بلاول بالغ ہو گئے ہیں۔ ویسے محلے داری کے کلچر سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اوباش چاچے ہی اکثر نوعمر لڑکوں کی بلوغت کا جب اعلان کرتے ہیں تو کردار دونوں کا مشکوک ہو جاتا ہے، لیکن خیر کیا واقعی بلاول کا یہ بیان پولیٹیکل میچیورٹی کے طور پر لیا جا سکتا ہے؟؟
زیادہ نہیں تھوڑا دور ماضی میں چلتے ہیں۔ اگست 2019 میں اپوزیشن پہلی تحریک عدم اعتماد لے کر آئی، 53 ارکان کی حمایت چاہیے تھی، 64 ارکان نے کھانا کھایا مگر ووٹ پچاس نکلے، 14 ووٹ کہاں گئے آج تک پتہ نہیں چلا۔
ہمارے ایک عزیز اور انتہائی معصوم دوست ہیں جن کی املاء کی خوبصورت غلطیاں صورتحال کو دلچسپ بنا دیتی ہیں، انہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ “خوفیہ” رائے شماری میں اپوزیشن اپنے ارکان پر کنٹرول نہ رکھ سکی، بلاشبہ وہ “خفیہ” لکھنا چاہ رہے تھے، ایسی ہی ایک دلچسپ سلپ آف ٹنگ نامور قانون دان سے بھی ہوئی جب انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی
Secret battle
پہ ڈال دی، جبکہ وہ بھی
Secret ballot
کہنا چاہ رہے تھے، وہ وکیل آج کل ایک عدالت میں اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن کے انعقاد کے درخواست گزار بھی ہیں۔
خیراگست 2019 کی عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی ایک کاز تھی یا افیکٹ۔۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ افواہیں تو یہ بھی تھیں کہ اس بار روایتی طور پر ارکان دائیں بائیں نہیں ہوئے، بلکہ “مفاہمت پسند قیادتوں” نے فریضہ ازخود سرانجام دیا، ویسے بھی یہ عدم اعتماد کی تحریک اپنے کانسیپٹ کے وقت سے ہی ناکام تھی، اور اس ناکامی کو ناپنے کا بیرومیٹر مرحوم و مغفور حاصل بزنجو کی چییرمین سینیٹ کے لئے نامزدگی تھی، 11 جولائی 2019 کو جب اپوزیشن نے حاصل بزنجو کو نامزد کیا تو سمجھ آ گئی تھی کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ کیوں کہ ن لیگ کے پاس ووٹ پورے ہوں تو امیدوار کا “شریف” ہونا ناگزیر ہے۔ جب ووٹ پورے نہ ہوں تو “اصولی طور پر یاراجہ ظفر الحق صاحب کو نامزد کیاجاتا ہے یا بزنجو صاحب جیسی نامزدگی سے ہی”چھوٹے صوبوں کی محرومی دور کی جاتی ہے۔
واپس آتے ہیں عدم اعتماد کے کاز اینڈ افیکٹ اینالسز پہ۔ اگست 2019 میں ایک چیز کا ایڈوانٹیج آپ بہر حال اپوزیشن کو ضرور دے سکتے ہیں کہ اس وقت موجودہ پی ڈی ایم کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا۔ تب اپوزیشن کے معاملات رہبر کمیٹی دیکھا کرتی تھی جس کی رہبری کون کرتا تھا، یہ ازخود ایک معمہ ہے۔ اگست 2019 کی ناکامی کو سمجھنے کے لئے آپ کو جنوری 2018 کے حالات اور معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی جنوری میں ہی عدم اعتماد کی باتیں ہیں، اللہ خیر کرے، جنوری کا مہینہ وزراء اعظم کو ہنگامی حالت میں کوئٹہ کا دورہ ضرور کراتے ہیں، بھلے وہ معصوم ہزارہ کی شہادتیں ہوں یا وہاں کے سیاسی حالات۔ جنوری 2018 میں شاہد خاقان عباسی کو بھی ہنگامی طور پر کوئٹہ جانا پڑا تھا، تب وہاں بظاہر بہت مضبوط نظر آنے والی ن لیگ کی حکومت لڑکھڑانے لگی تھی، ثناء اللہ زہری کے خلاف قدوس بزنجو کی تحریک عدم اعتماد اچانک ایک زورآور تحریک بن گئی اور ن لیگ کے جان محمد جمالی اور دیگر قائدین بھی اس تحریک کی پشت پر آ کھڑے ہوئے تھے۔
اور پھر جنوری کے پہلے دس دن میں وہ ہونا شروع ہوا، جو بظاہر ناممکن نظر آ رہا تھا، اور عدم اعتماد کا سامنا کیے بغیر ن لیگ کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری نے 9 جنوری 2018 کو استعفیٰ دے دیا۔
اب ہمارے سامنے اگست 2019 کی ایک ناکام اور جنوری 2018 کی ایک کامیاب عدم اعتماد کی تحریک ہے، دونوں میں کیا کنکشن ہے، یہ سمجھیں گے تو آگے کی تصویر کچھ کچھ واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔ ایک سادہ سا کنکشن تو دونوں تحریکوں میں پیپلزپارٹی کا محرک ہونا ہے، اگست 2019 کی سینیٹ چییرمین کی ناکام عدم اعتماد تحریک کے ساتھ، یاد رہے کہ ایک اور تحریک بھی ناکام ہوئی تھی، اور وہ تھی حکومت کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد، جو اکثر ہم بھول جاتے ہیں۔
اب ایک ناکام اور ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد، جس میں ڈیڑھ سال کا عرصہ حائل ہے، اور جن دونوں میں ایک پرائم موٹیو پاکستان پیپلزپارٹی ہے، ان کو ایک ساتھ دیکھنےکے لئے 2018 جنوری کی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد کے واقعات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور اس سے پہلے جون 2015 کی ایک عدم اعتماد کو بھی سمجھنا اہم ہے۔جو ان دونوں عدم اعتماد کی تحریکوں کا محرک ہے۔
بلوچستان میں جادو چل چکا تھا۔ ایک مضبوط حکومت زمین بوس ہو چکی تھی اور 600 سے کم ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے قدوس بزنجو، وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدم اعتماد تحریک کے اہم ترین کھلاڑی بننے سے قبل ان کے ووٹ کسی کو نہیں کھَلتے تھے، لیکن عدم اعتماد کی کامیاب تحریک کے بعد، ان کے ووٹ ان کے لئے طعنہ بن گئے۔ اس عدم اعتماد کی کامیاب تحریک کے بعد، 2018 کے مارچ میں شیڈولڈ سینیٹ انتخابات پر سے دھند ایسے چھٹ گئی، جیسے اب کی بار بلاول کے عدم اعتماد کی تحریک کے اعلان اور عملاً مولانا فضل الرحمن کے جارحانہ پلان آف ایکشن پر عدم اعتماد کے بعد چھٹ گئی ہے۔ 2018 کی طرح 2021 کے سینیٹ کے انتخابات کے انعقاد اور امکان کے حوالے سے قیاس آرائیاں عدم اعتماد کے پینترے کے بعد یکسر چھٹ گئی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہی ہے کہ، دونوں بار پیپلز پارٹی اس عدم اعتماد کی تحریک تسلی یا لارے کی اہم کھلاڑی ہے۔
اس کے بعد سینیٹ کا انتخاب ہوا، اس میں کیا ہوا، میرے خیال سے یادوں سے ابھی محو نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کو تمام تر خدمات کے باوجود ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر اکتفا کرنا پڑا اور چشم فلک نے ایک عجیب منظر بھی دیکھا کہ سابق صدر زرداری صاحب اور موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کے لئے۔۔ ایک ساتھ۔۔ متحرک ہوئے۔اور دونوں نے مشترکہ گول اچیو بھی کر لیا۔
12مارچ 2018 کو میں سینیٹ کی پریس گیلری میں موجود تھا، جب صادق سنجرانی، مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق کے 46 ووٹ کے مقابلے میں 57 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ کہنے کو صادق سنجرانی آزاد امیدوار تھے، مگر سینیٹ کی مہمانوں کے لئے مختص گیلری جئے بھٹو۔ اور ایک زرداری سب پہ بھاری کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تب ایک استاد محترم نے تاریخی جملہ کہا کہ “قدرت کی ترتیب الٹی ہے، بھٹو اگر زرداری صاحب کے سسر کی جگہ داماد ہوتے، تو پھانسی سے بچ جاتے”۔یہ کامیاب عدم اعتماد کی تحریک بھی کیا کاز تھی یا افیکٹ؟؟ اس پر بھی رائے منقسم ہے، لیکن اسلام آباد کے معاملات کو پنڈی سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ عدم اعتماد کی تحریک بھی۔۔ افیکٹ تھی۔۔ کاز نہیں۔
آپ یقیناً جزبز ہو رہے ہوں گے کہ میں آخر کہنا کیا چاہ رہا ہوں، تو سادہ سی بات ہے کہ اب کے جس تحریک عدم اعتماد کا نعرہ مستانہ لگایا گیا ہے، وہ بھی، اور جو ماضی قریب میں کامیاب عدم اعتماد ہوئی، دونوں نتائج ہیں، اساس نہیں، اندر کی بات بتانے والے بتاتے ہیں کہ دونوں عدم اعتماد کی تحریکوں اور پیپلزپارٹی کے باقی ماندہ پی ڈی ایم پر “عدم اعتماد” کی وجہ جون 2015 کے کچھ واقعات ہیں۔
16دسمبر 2014 کے المناک ترین سانحہ اے پی ایس کے بعد قومی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔ اس وقت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ آج کی طرح ایک پیج پر نہیں تھی، 2014 کے دھرنوں نے تناؤ کو گہرا کر دیا تھا۔ سانحہ اے پی ایس سے پہلے شدت پسندوں سے مذاکرات یا ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر مختلف آرا تھیں، لیکن اس سانحے نے منقسم اور منتشر سوچ کو یکسو کر دیا اور شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب کا آعاز ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان بنا، اور طاقت کا توازن پوری طرح اس وقت کے چیف جنرل راحیل شریف کی سمت جھک گیا اور شکریہ راحیل شریف ایک قومی نعرہ بن گیا۔
ان حالات میں اسلام آباد میں نوازشریف کی حکومت پریشان تھی، جو اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کو 2014 کے دھرنوں کا ذمہ دار بھی سمجھتی تھی۔16جون 2015 کو تب صدر زرداری نے بقول باخبر حلقوں کے، نوازشریف پر پہلی اور شاید آخری بار اعتبار کیا اور ایک بیان دیا جس نے ہلچل مچا دی۔ “بلا دودھ پی جاتا ہے” اور “اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے” کہا جاتا ہے کہ ان سخت بیانات کی فرمائش ن لیگ نے کی تھی، لیکن اتنے سخت بیانات ہوں گے۔ یہ ن لیگ کو بھی توقع نہیں تھی۔
لہذا، زرداری صاحب قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔۔کہہ کر ن لیگ پیچھے ہٹ گئی اور زرداری صاحب کے بیان کی مذمت نہ صرف چودھری نثار نے یہ کہہ کر کی کہ زرداری صاحب اپنی کرپشن بچانے کے لئے قومی ادارے پر تنقید کر رہے ہیں، بلکہ میاں صاحب کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے خواجہ آصف نے بھی کہا کہ فوج ملک دشمن قوتوں کے خلاف کامیاب کارروائی کر رہی ہے اور زردادی صاحب نامناسب زبان استعمال کر رہے ہیں۔ تو عزیز قارئین۔،یہ تھا بنیاد یا کاز۔ جس کا ایفیکٹ اس کے بعد آنے والی عدم اعتماد کی تحریکیں بنیں۔ زرداری صاحب اس بین کے بعد جس تنہائی اور جلاوطنی سے گزرے، اس نے ایک ایسا عدم اعتماد پیدا کیا کہ اس سے ہزار تحریکیں جنم لے سکتی ہیں، باقی دونوں جماعتیں اتحاد اور قربت کو کیسے بارگیننگ ٹول کے طور پر استعمال کرتے رہے یہ موضوع الگ بحث کا متقاضی ہے۔فرق ہے تو اس بار۔۔ مولانا فضل الرحمن کا فیکٹر ہے، جو ڈٹا ہوا ہے، مولانا کے ساتھ دو سال میں دو بار جو ہوا اور اب کی بار جو ہونے جا رہا ہے اسے ایک واقعے سے سمجھئے،
سیمیوئل بارٹرم انگلینڈ کے ایک فٹبالر تھے، جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں چارلٹن کلب سے بحیثیت گول کیپر منسلک رہے اور ایک طویل کیریئر رکھتے تھے۔ وہ مزاجاً کس قدر شدت پسند تھے اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ انہوں نے اپنی شادی کی تقریبات پر ایک ڈومیسٹک میچ کو ترجیح دی تھی۔ 1937 کے یخ بستہ دسمبر میں غالباً کرسمس کے موقعے پر وہ چارلٹن کی نمائندگی کر رہے تھے۔ فلہم لندن کے اسٹیمپ فورڈ اسٹیڈیم میں چیلسی سے ہونے والے اس میچ میں شدید دھند تھی۔ سیموئیل بارٹرم اس دھند میں، جس میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، اپنے گول پوسٹ کے دفاع پر مستعدی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ میچ جاری تھا، یہاں تک کے بہت وقت سے بارٹرم بلکہ یوں تنہا کھڑے تھے کہ بال ان کی طرف آنا تو کجا، کوئی کھلاڑی بھی اس جانب نہیں آ رہا تھا۔دھند کی وجہ سے وزیبلٹی قریباًصفر تھی مگر بارٹرم یہ سوچ کر ڈٹے کھڑے تھے کہ ان کے ساتھی مخالف ٹیم اور ہدف پر بھرپور حملے کر رہے ہوں گے اور وہ اپنا محاذ مضبوطی سے سنبھالے رکھیں گے،کہ اتنے میں ان کے پاس سیکورٹی آفیشل دھند کی دبیز چادر چیرتا آیا اور بولا کہ تم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو؟ تمہارے ساتھی تو کوئی پون گھنٹہ پہلے۔۔ ایمپائر کی سیٹی۔۔ پر میدان چھوڑ چکے۔۔ کھیل اکسٹھویں منٹ پر رک گیا تھا۔
لہذا فضل الرحمن بھی دھیان رکھیں، دھند شدید تر ہے، وہ بھی ایمپائر کی سیٹی پر دھیان رکھیں۔ ورنہ میچ ختم ہو چکا ہوگا اور مولانا میدان میں مستعد ہی ہوں گے۔
Comments are closed.