بارسلونا کا پریشان رمبلا،پاکستانی، سیاح اور وہاں موجود بلا

ہسپانیہ نامہ ——- ڈاکٹر عرفان مجید راجہ قسط نمبر 5 پریشان رمبلا

لا رمبلہ لفظ عربی سے ہسپانوی میں آیا ہے یعنی بازار، گُزرگاہ۔ لارمبلہ کاتالونیہ کو قبولِ خاص و عام حاصل ہے۔ یہاں پاکستانی، ہندوستانی، اطالوی اور اب بنگالی مکمل طور پر کاروبار کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہیں۔ جو بارسلونا آتا ہے، لا رمبلہ کاتالونیہ ضرور آتا ہے۔ قدیم بارسلونا سے سمندر کی طرف دو بڑے رستے جاتے ہیں۔ ایک رمبلہ جو بارسلونا کی مشہور و معروف و مصروف فوڈ سٹریٹ، کاروباری، تجارتی مرکز اور سیاحوں کے لیے محبوب گزرگاہ ہے اور دوسرا پریشان رملا۔

پریشان رملا کو بلی والا رملا بھی کہا جاتا تھا جو بعد از تحقیق مُجھے لکھنا پڑا کہ جِسے بلی سمجھا جا رہا تھا وہ بِلا (۱۳) ہے۔ میں نے مذکورہ بِلی کے اوپر جس طرح سیاحوں کو لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا، اُس کی مُونچھوں پر غور کیا اور جب اُس اُگاڑ سے فُرصت ملی تو پچھواڑے کا جائزہ لیا تاکہ اصطلاح “اُگاڑ پچھاڑ” کا حق ادا ہو جائے سو مُجھ پہ کُھلا کہ بلی نہیں یار اچھا بھلا موٹا تازہ بِلا ہے۔

اِسی پریشان رملا پر ایل روال ہوٹل کی اونچی، گول اور بیضوی عمارت ہے۔ پاکستانی کمیونٹی میں یہ گول ہوٹل مشہور ہے۔ اسی جگہ کے متعلق افواہیں پھیلائی گئیں کہ گجرات کے چوہدری خاندان کی خدا نخواستہ یہاں کوئی سرمایہ کاری ہے۔ یہاں جناب ثاقب طاہر کے برادر خُرد توقیر طاہر وڑائچ کے دفاتر تھے جو وکیل ہیں اور وکیل ہو کر دفتر اُس عمارت میں رکھنا کوئی عیب نہیں اور نہ ہی اِس کا مطلب گجرات کے چوہدری خاندان کی سرمایہ کاری نکلتا ہے۔ چوہدری صاحبان کے قریبی تعلقات وکیل صاحب کے بڑے بھائی اور چوہدری ثاقب طاہر سے چھوٹے برادر چوہدری عدیل وڑائچ سے ہیں اور تعلقات، رِشتے ناطے قابلِ احترام ہوا کرتے ہیں۔

یہ دفاتر کب خریدے گئے یا کرایہ پر حاصل کیے گئے، اصل میں یہ کس کے ہیں، کیوں ہیں اور کب سے ہیں؟ اس باب میں مناسب یہی ہے کہ تاریخ کو خموش رکھا جائے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں شکوک و شبہات پال کر افواہیں اڑانے کی عادت نئی نہیں۔ بارسلونا کی معروف تعمیرات سے منسلک شخصیّت چوہدری امتیاز لوراں، سابق صدر پاک فیڈیریشن چوہدری عبدالغفار مرہانہ، راجہ شعیب ستی تدفین کمیٹی بارسلونا کے روحِ رواں چوہدری نوید وڑائچ کے علاوہ بہت سے لوگوں کے چوہدری خاندان سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں تو کیا اس کا مطلب بھی سرمایہ کاری ہی لیا جائے؟ لوگ افواہوں کا بازار گرم کیے رکھیں، راقم الحروف پورے وثوق سے بتائے دیتا ہے کہ بارسلونا میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے سب سے زیادہ فلاح کا کام گجرات کے چوہدری خاندان کے ساتھ منسلک بارسلونا میں موجود اُن کے کارکنان اور اُن کے تعلقات نے کروایا ہے۔

پریشان رملا کا پاکستانی تاریخی پس منظر یہی ہے کہ یہاں وہ جنہیں کاغذات مل چُکے تھے، وہ جو درخواست دے چُکے تھے اور وہ جو دینے والے تھے، سب مل بیٹھ کر پیچھے جو چھوڑ آئے تھے اُسے یاد کیا کرتے، جس حال میں تھا وہ ایک دوسرے کو بتا کر ایک دوسرے کی تسلی بنتے اور مُستقبل کے بارے میں خداشات اور اُمیدوں کا ملا جُلا اظہار کرتے۔ ان لوگوں میں لُٹ کر اور لُوٹ کر آنے والے، مال اور زمین بیچ کر بارسلونا پہنچنے والے، دل پشوری اور چیزہ بازوں کی بڑھوں سے متاثر ہو کر سپنے سُہانے لڑکپن کے آنکھوں میں سجا کر آنے والے سبھی شامل تھے۔

یہ سن ۲۰۰۲ کا قصہ ہے اور راقم الحروف سے روایت ہے کہ ایک شب میں اپنے ایک رشتہ دار سے ملنے بارسلونا مرکز گیا۔ اُن کے سو سال سے زائد پرانے، اُونچے، کُھلے اور بڑے اپارٹمنٹ میں کُچھ لوگ بیٹھے تھے جن میں سے کُچھ کو کاغذات مل چُکے تھے اور باقی انتظار میں تھے۔ ایک بھائی کی طرف ہمارے رشتہ دار صاحب نے اشارہ کر کے بتایا کہ اسپین بھلا مانس ُملک ہے، اُس بچے کو کاغذات دے دیے جس نے گائنی کالوجسٹ کا سرٹیفیکیٹ درخواست کے ساتھ لِف کیا تھا”۔ فرمانے لگے، ڈاکٹر بیٹے رہنے کے لیے مُلک اسپین ہی ہے باقی تو ۔۔۔ بس”۔

سن ۱۹۹۸ تا ۲۰۰۰ عیسوی کی امیگریشنز اپنے ساتھ سب سے زیادہ تارکین وطن کا ریلا لائی تھیں سو ہر نوارد کا مسکن عارضی یا مستقل روال رہ چُکا ہے۔اُن میں وہ بھی تھے جو پیسہ بنا رہے تھے، درخواستیں پُر کرتے، عرضیاں لکھتے، اور “ضروری کاغذات کی فائلز” تیار کرتے کلرک یا مُنشی کی بجائے دھیرے دھیرے خود کو وکیل، ماہرینِ امیگریشن، ماہرینِ قانون اور مددگار بنا کر پیش کر رہے تھے۔

پاکستانی کمیونٹی کا بڑا حصہ ایل روال میں وارد ہوا اور اُس کا بڑا حصہ یہیں کا ہو رہا۔ جو یہاں سے نکل گئے وہ ہوسپیتالت دے یوبریگات، ایل پرات دے یوبریگات، سانتا کولوما دے گرامینیت، بادالونا میں آباد ہوئے۔ بعد میں آبادی بڑھتے بڑھتے ترینیتات، مونت کادا ای رئیشاک اور ماتوریل تک چلی گئی اور کئی پاکستانی کاتالونیا کے دور دراز قصبوں، گاؤں اور دیہات میں بوجہ فیکٹریوں میں کام، کھیتی باڑی یا شادی آباد ہو گئے۔

پریشان رملا نے بڑے کارباری، بڑے مستری، بڑے مزدور، کال سنٹر مالکان اور دُکان دار پیدا کیے۔ یہاں تین کاروباروں کو بہت عروج مِلا۔ اوّل مزدور اور مالک کو، لوکو توریو اور سوم فارغ البالوں کو۔ فارغ البالوں نے مستقبل کے سنیاسی سماجیوں کے کارکنان اور یار دوست بن کر رہنے کو ترجیح دی اور اس شعبے میں کمال حاصل کیا۔ یہ طبقہ ضرورت کا کام کرتا مگر اُتنا ہی کہ طبیعت پہ گراں گُزرنے کی نوبت نہ آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے سنیاسیوں، سماجیوں اور کاروباریوں کی آشیر باد سے چھوٹی موٹی دودھ دہی، منیاری وغیرہ کی دُکانیں بنانا یا اُن کے ہاں مزدوری شروع کر دی تا کہ پاکستان سے خاندانوں کو بلایا جا سکے۔ وطن عزیز سے خاندان آئے، بچے پلے بڑھے، جوان ہو کر والد کا سہارا بنتے گئے۔ دھڑا بندی اور کاروبار فروغ پاتے گئے۔

 اصل ترقی مگر لوکوتوریو والوں نے کی۔یہ منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا تھا۔ ہر تارکِ وطن نے وطنِ عزیز کال کرنا ہوتی تھی۔ سستے فون کارڈز اور نت نئے کارڈز اُن کی ضرورت تھے۔ فون اور بنک کارڈز انہی لوکوتوریوز پر صحیح استعمال ہوتے تھے۔ فوٹو کاپی سے لے کر ترسیل زر، عرضیاں، کاغذات اور ہر قسم کے فارم پُر کرنے کی سہولیات موجود تھیں۔ سیتا (دفتری اپائنٹمنٹ) یہاں نکال کر دی جاتی تھی۔ پھر انٹرنیٹ کا رواج پڑا تو قطار در قطار کمپیوٹرز یہاں نصب ہوئے اور کاروبار مزید بڑھا۔موبائلز میں ترقی کے ساتھ ساتھ لوکوتوریو کا کاروبار زوال پزیر ہوتا گیا اور بڑے لوکوتوریو بڑی موبائل شاپس میں بدلنے لگیں۔ آج ایل روال میں بلا شرکتِ غیرے پاکستانیوں کا موبائل انڈسٹری پر مکمل تصرف (۱۴)ہے۔ یہیں سے سارے کاتالونیا میں پاکستانیوں کا کاروبار کنٹرول ہوتا تھا کہ لوگ کاروبار پھیلا رہے تھے مگر اُن کی رہائش اور مرکزی دفاتر بارسلونا مرکز میں ہی رہے۔ اِسی پریشان رمبلہ سے مستقبل کے سنیاسی، سماجی، سیاسی، صحافی نکلے۔

پریشان رملہ امین ہے اُن مجبُوروں کا جن کے پاس کاغذات تھے مگر زبان نہیں آتی تھی۔ اُن کا جن کے پاس کام نہیں تھا اور وہ اپنے بھائی بندوں کے ہاتھوں لُٹتے رہے کہ محنت یہ کرتے اور تنخواہ اُن کے ذریعے وصول کیا کرتے۔ ایسی سینکڑوں مثالیں روال کی گلیوں میں بال کھولے بھاگتی پھرتی ہیں۔ مگر جیسا کہ مشہور ہے کہ خدا محنت کش کا ہے، ویسا ہی ہوا۔ آج ایل روال اُن محنت کشوں اور اُن کی اولادوں کا مسکن ہے۔ چاہے خانے، موبائل شاپس، تھوک و پرچون، سبزی اور پھلوں کی دُکانیں، چار چفیرے ڈونر شاپس، پاکستانی ریستوران عام پاکستانیوں کی ملکیّت ہیں جو آج بھی اکاؤنٹنٹ اور کاروباری ماہرین ڈھونڈتے گلیوں میں مل جاتے ہیں مگر ان المشہور المعروف سنیاسیوں، امیگریشن اور کاروبار ایجنٹوں بنام کنسلٹنٹس کے پاس نہیں جاتے جو وقت گُزرنے کے ساتھ خود ساختہ القابات اور خطابات پر پکے ہو گئے اور خدا کے فضل سے اسناد تب اُن کے پاس تھیں اور نہ اب ہیں سوائے محنت کش اور ریاضت کیش والدین جن کی اولادوں اور اُن جوانوں کے جو یہاں کے سکول اور کالجز سے نکل کر جامعات تک پہنچے اور جن کا ذکر اپنے وقت پر آئے گا اور اُن کا ذکرِ خیر مُجھ پر فرض ہے کہ مالکِ ارض و سماوات کا فرمانا ہے “ علی المومنینَ کِتاباً موقوتا (۱۵)”۔

پریشان رملا کے کونے کُھدروں میں پاکستانی کمیونٹی کی سُلگتی، مہکتی، چہکتی اور کہیں رُلاتی کہانیاں دبی پڑی ہیں۔ ایل روال، نوؤ دے رمبلہ اور اوسپیتال گلیوں کو میں نے اپنی کہانیوں کا محور و مرکز بنایا ہے۔ جنھیں خاک سائر نے ایسا لکھا ہے کہ ہسپانیہ نامہ کے پہلے حصے المعروف جلد اوّل میں آپ پڑھ لیں گے۔ کہانیوں کے ساتھ نوٹس اور تاثرات بھی مزیدار ہیں۔ سرِ دست اتنا جان لینا کافی ہے کہ پریشان رملا تین بڑے گروہوں میں تقسیم ہوا۔ راجا، چوہدری (گجر اور جاٹ اور ہر وہ شخص جس کے نام کے ساتھ چوہدری یا چودھری لگتا ہے) اور کشمیری برادریاں اور مرکزی کہانیاں براہِ راست یا بال راست انہیں کے گرد گھومتی ہیں۔

(۱۳) رامبلہ روال میں موجود بلے کے مجسمے کے خالق معروف کولمبین مجسمہ ساز فرناندو بوتیرو (Fernando Botero) ہیں۔ ہمارے ہاں چڑیل کے بارے میں مشہور ہے کہ سو گھر بدلتی ہے یا نناوے گھر بدل کر سویں گھر کا شکار کرتی ہے بالکل اس طرح بلی کے بارے میں مشہور ہے بِلیاں نو گھر بدلتی ہیں۔ بارسلونا کی شہری کونسل نے 1987عیسوی میں یہ مُجسمہ خریدا اور بارسلونا میں کبھی اِس اور کبھی اُس در کی یاترا کے بعد 2003 عیسوی میں یہ مجسمہ ایل روال کے رمبلہ روال، معروف بہ پریشان رملا، معروف بہ بلی والا رملا میں نسب کر دیا گیا۔

(۱۴) صرف ایل روال میں پاکستانیوں کے دس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے رجسٹرڈ کاروبار ہیں۔

(۱۵) مکمل آیۃ مبارک یوں ہے”إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا”. ہم نے فرض کی اہمیت جو ہمارے ہاں (یعنی خاک سائر کے نزدیک) رائج ہے، اُجاگر کرنے کے لیے آیۃ مبارکہ کا آخری حصہ تبرکاً اختیار کیا ہے کہ اہلِ علم کا مقام اعلیٰ ہے۔

 

نوٹ: نیوز ڈپلومیسی اور اس کی پالیسی کا اس کالم نگار/بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed.