کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے بحالی کے بعد بھی عالمی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے چین کے علاوہ دیگر ممالک پر انحصار کرسکتی ہیں، اس طرح کئی صنعتیں پاکستان میں بھی منتقل ہوسکیں گی۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز( ایف پی سی سی آئی) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرتضیٰ سید نے کہا کورونا وائرس کی وبا چین میں کم ہوئی ہے لیکن یہ انفیکشن دنیا کے دیگر ممالک تک پھیل رہا ہے اور مئی کے آخر تک صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے سینٹرل بینک کے حکام کے مطابق چین میں 50 سے 60 فیصد کارخانے بند ہو چکے ہیں اور اگلی سہ ماہی میں چینی معاشی ترقی میں کمی واقع ہوگی، گزشتہ برس عالمی جی ڈی پی 3 فیصد بڑھی تھی لیکن کورونا وائرس کے تحت اس سال کمی واقع ہوگی۔
مرتضیٰ سید نے مزید کہا کہ سرمایہ کاروں میں خطرات یا رسک لینے کا رجحان کم ہورہا ہے اور پیسہ کسی بانڈ کی طرح رسک فری مارکیٹ کی جانب منتقل کیا جا رہا ہے دوسری جانب انگلینڈ اور دیگر مضبوط معیشتوں نے کورونا وائرس کے اثرات جھیلنے کے لیے شرح سود کم کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال 2018ء میں 3.09 ارب ڈالر کے برقی آلات درآمد کیے گئے تھے جن میں بوائلر، مشینریاں اور دیگر اشیا بھی شامل ہیں، پاکستان 20 فیصد خام مال بیرونِ ملک سے منگواتا ہے جن میں چین سرِ فہرست ہے تاہم اب تاجر حضرات چین کی بجائے دیگر متبادل مارکیٹوں کی جانب متوجہ ہورہے ہیں تاکہ صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے بھی پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ہم تیل کی بڑی مقدار درآمد کرتے ہیں، مستقبل قریب میں کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی صورتحال خراب ہوسکتی ہے لیکن طویل المدتی عرصے کے لیے ہمیں پرامید رہنا ہوگا۔
Comments are closed.