کورونا وبا میں ڈیجٹلائزیشن سے عالمی معیشت کی تعمیرنو، ای کامرس کوفروغ ملا، ماہرین

اسلام آباد: نامور معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی وباء کے دوران ڈیجیٹلائزیشن سے عالمی معیشت کی تعمیر نو اور ای کامرس کو فروغ ملا اور معیشتوں میں صحت مند رحجان دیکھنے میں آئے، افغانستان میں سیاسی استحکام خطے کے امن وترقی کیلئے ناگزیر ہے۔

پالیسی ادارہ برائے پائیداترقی نے چار روزہ سالانہ کانفرنس کا آغاز کر دیا۔ابتدائی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے ایس ڈی پی آئی کی سالانہ کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ ایس ڈی پی آئی کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز کے سربراہ شفقت کاکا خیل نے افتتاحی کلمات ادا کئے،کانفرنس کے موقع پر ایس ڈی پی آئی کی دو کتابوں کی رونمائی کی گئی۔

کانفرنس سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے شنگہائی تعاون تنظیم کے سربراہ ولادیمیر نارو نے کہا کہ کوویڈ 19 نے دنیا بھر میں جہاں صحت عامہ اور عالمی معیشت بری طرح متاثر کیا ہے وہاں یہ بحران زندگی کے مختلف شعبہ جات کو ڈیجیٹل عمل میں لے کر جانے کا بھی باعث بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل معیشت کے ذریعے آن لائن تجارت کے فروغ سے معیشتوں میں صحت مند رحجانات دیکھنے میں آئے ہیں جس سے ناصرف معیار میں بہتری آئی بلکہ مقابلے کا صحت مند رحجان بھی پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی رحجانات میں اضافے کے سبب اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے حصول میں مدد ملی ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ وباءکے دوران ہر سطح پر آن لائن کاروبار کو فروغ ملا اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔

 شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ نے بتایا کہ گز شتہ نومبر میں تنظیم کے ممبر ممالک نے کثیر اجہت تجارت اور معاشی تعاون کے نئے پروگرام کی منظوری دی اوررکن ممالک کے درمیان تجارت اور پیداواری صنعتوں کے فروغ، ڈیجیٹلائزیشن اور اعلی ٹیکنالوجی کو اپنانے پر زور دیا گیا۔ انہوں نے مذید بتایا کہ اس وباءکے دوران چین سے قا زقستان، روس اور یورپ سے وسطی ایشیاءاور خلیج فارس کے ممالک تک بذریعہ ریل تجارت کو فروغ دینے سے رکن ممالک کی مال برداری کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے خطے کے تجارتی حجم میں اضافہ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ مزار شریف ، ہرات،اور پشاور کو ریل اور سڑک کے ذریعے منسلک کر کے علاقائی راہداری فراہم کی جا رہی ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ شہنگائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک افغانستان میں سیاسی استحکام کو خطے کی معاشی ترقی اور علاقائی امن کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں۔ افغانستان نے تنظیم کے چار رکن ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں شیئر کیں جو خطے میں امن اور ترقی کا سبب ہو گا۔

باہمی تعاون پر زور دیتے ہوئے انہوں نے شنگہائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان وباءسے سیاست ، معیشت اور صحت پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کا اعادہ کیا ۔ انہوں نے تنظیم کے رکن ممالک کے اجلاس میں ترقیاتی حکمت عملی 2025ء پر اتفاق رائے کو خوش آئند قرار دیا جس سے کورونا کی وباءکے دوران معیشتوں کی بحالی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

کانفرنس میں شامل عالمی سماجی تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی ترجیحات پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ سماجی تحفظ پالیسی سازی کا اہم جُز ہونا چاہئے۔ قومی و صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے پالیسی سازی و دیگر امور میں آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ اہم اصلاحات کے ذریعے جامع پالیسیاں بنا کر اداروں کے درمیان موثر رابطہ کاری سے کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں ایس ڈی پی آئی کے بورڈ آف گورنر کے سربراہ شفقت کاکا خیل نے کہا کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے مختلف خطوں میں اقوام خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہوئیں اور غربت میں اضافہ ہوا۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے تحفظ خوراک کے حوالے سے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔کانفرنس سے وزیر اعظم کے ہیلتھ انشورنس سکیم کے سربراہ فیصل رفیق، عالمی بنک گروپ سے لیری ارساڈو نے بھی معیشت اور سماجی نمو پر اظہارخیال کیا۔

معاشی ترقی ،ساجی تحفظ اور عالمی مالیاتی ادارے کے مو ضوع پر سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میںکورونا سے معاشی صورتحال اتنی خراب نہیں ہوئی لیکن پھر بھی پاکستان میں جی ڈی پی کی نمو میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔مالی سال 2019۔20 کے دوران نمو2.5 فیصد کم ہوئی ہے اور یہ رواں مالی سال کے دوران صرف 1 فیصد رہے گی۔ یہ 2000 کے بعد اب تک کی سب سے بڑی کمی ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اس وباءکے دوران بے گھر اور بیروزگار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک کارکنوں کی بدولت ترسیلات زر میں 27فیصد اضافہ ہوا احساس پروگرام کے بھی ا چھے نتائج سامنے آئے لیکن ان سب کے باوجود مستقبل میں قرضوں کی ا دائیگیاں حکومت کیلئے بڑا مسئلہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایف ای ایس کے سربراہ ڈاکٹر جوکن ہیپلر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت پر جہاں وباءکے مختلف اثرات ہیں اس میں کورونا ویکسین پر امریکہ جیسی بڑی طاقتوں اور یورپ کی اجارہ داری تشویشناک ہے۔ فاطمہ جناح یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشری یا سمین نے کہا کہ وباءکے باعث غریب عوام کی حالت تشویشناک حد تک متاثر ہوئی اور نوجوانو کیلئے تعلیم اور روزگار کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔

 کورونا کے دوران زرائع ابلاغ کے کردار پر ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹرشفقت منیر ، عاصمہ شیرازی اور عامر ضیاءاور جنوبی ایشیائی ممالک کے تعلق ر کھنے والے س سینئر صحافیوں نے اظہار خیال کیا ۔ کانفرنس کے پہلے روز مزدور سماجی رہنما کرامت علی کی سوانح عمری اورایس ڈی پی آئی کے محمود اے خواجہ کی کتاب ”ماحول میں زہریلی آمیزش “ کی رونمائی کی گئی۔ اس موقع پر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے نائب سربراہ ڈاکٹر وقار احمد ، معروف مورخ مبارک علی، سماجی کارکن تحسین احمد ،سابق مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا ، ماہر معاشیات پرویز اے طاہر نے بھی اظہار خیال کیا۔

Comments are closed.