نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس “پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اقتصادی ایجنڈے کو ترجیح دینا: چین، امریکہ اور یورپی یونین کے تناظر میں” اختتام پذیر ہوگئی۔
کانفرنس میں ممتاز اسکالرز، پالیسی سازوں اور محققین نے شرکت کی اور بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کی اقتصادی سفارتکاری کو بہتر بنانے پر اپنے خیالات کا اظہارکیا-
کانفرنس کے آخری سیشن کا موضوع پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان اقتصادی تعلقات کو ترجیح دینا تھا۔
اجلاس کا آغاز پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاد، جین مونیٹ چیئر اور ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز، نمل نے کیا، جنہوں نے یورپی یونین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر عابیہ زہرا، اسسٹنٹ پروفیسر اور چیئرپرسن، ڈیپارٹمنٹ آف گورننس اینڈ گلوبل اسٹڈیز، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی، لاہور نے پاکستان-یورپی یونین اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے میں درپیش چیلنجز پر بات کی۔
ڈاکٹر نجمدین بکارے، پروفیسر، سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبلیٹی، نسٹ نے اقتصادی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے مواقع کی نشاندہی کی، جبکہ تیمور فہد خان، ریسرچ ایسوسی ایٹ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے اقتصادی تعاون کو بڑھانے کے لیے کلیدی پالیسی اسباق پیش کیے۔
کانفرنس کے نتائج اور سفارشات پیش کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاد نے درج ذیل نکات پر زور دیا:
دنیا میں کئی اقتصادی طاقتوں کے ابھرنے سے پاکستان کے لیے چیلنجز اور مواقع دونوں پیدا ہوئے ہیں۔ مسابقتی رہنے کے لیے پاکستان کو خاص طور پر ایشیا، خصوصاً مشرقی ایشیا میں ابھرتی ہوئی معیشتوں پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھانے چاہیے۔
پاکستان کا صنعتی ڈھانچہ نسبتاً چھوٹا ہے، جو اقتصادی ترقی اور تنوع کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔ سی پیک، خاص طور پر خصوصی اقتصادی زونز (SEZs)، اس حوالے سے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ صنعتی صلاحیت کو بتدریج بڑھانا ضروری ہے۔
پاکستان کو مصنوعات، اور افرادی قوت کے لحاظ سے اپنی پیداواریت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ غیر ہنر مند مزدوروں پر بڑھتی ہوئی انحصار کا رجحان پاکستان کی معیشت اور افرادی قوت کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو استعمال کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کو اپنی برآمدات میں تنوع، ویلیو ایڈیشن، اور مقابلہ جاتی برتری کا تعین کر کے برآمدات کو فروغ دینا چاہیے۔
ملکی تجارتی معاہدوں اور دیگر ممالک کے ساتھ شراکت داری میں نجی شعبے کی شمولیت کو فعال طور پر فروغ دینا چاہیے۔
پاکستان کو ترسیلات زر، سرمایہ کاری، کاروباری تعلقات کے لیے اپنی بیرون ملک مقیم پاکستانی برادری سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آئی ٹی، فارماسیوٹیکلز، توانائی کے شعبے، اور سیاحت جیسے مخصوص شعبوں میں تعاون کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور امریکہ کو ایسے ادارہ جاتی فریم ورک کی ضرورت ہے جو اقتصادی معاملات کو سیکیورٹی سے متعلق خدشات سے الگ کرے۔ غیر سیاسی شعبوں جیسے ٹیکنالوجی، تعلیم، اور قابل تجدید توانائی پر زور دے کر دونوں ممالک ایک ایسا اقتصادی تعلق بنا سکتے ہیں جو جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں کے باوجود برقرار رہے۔
پاکستان کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ زراعت پر مبنی ہے۔ پاکستان خام مال پیدا کرتا اور برآمد کرتا ہے لیکن پراسیس فوڈ تیار کرنے والی صنعتوں کی کمی ہے۔
ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مستحکم سیاسی ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نمل، بریگیڈیئر شہزاد منیر نے اظہار تشکر پیش کیا اور اس کانفرنس کو اہم مسائل پر روشنی ڈالنے پر منتظمین کی کاوشوں کو سراہا۔
انہوں نے جغرافیائی معیشت اور اقتصادی سفارت کاری پر توجہ مرکوز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور عالمی اقتصادی طاقتوں کی حدود کو سمجھنے پر زور دیا۔
بریگیڈیئر منیر نے شرکاء کو علم کی ترسیل، قومی وقار کو فروغ دینے، اور پاکستان کی ترقی کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کی تلقین کی۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو نئے اقتصادی مواقع تلاش کرنے، ابھرتے ہوئے چیلنجز سے ہم آہنگ ہونے اور ایک مضبوط اقتصادی قوت بننے کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے۔
Comments are closed.