اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں بچوں پر تشدد فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے،گلوکار اور سماجی کارکن شہزاد رائے کی درخواست پر داخلہ، قانون، تعلیم و تربیت، انسانی حقوق کی وزارتوں کے سیکرٹریز اور آئی جی اسلام آباد سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت کی،درخواست گزار سماجی کارکن کے وکیل کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں پر آج بھی بری طرح تشدد ہوتا ہے اور جسمانی سزا دی جاتی ہے، کچھ روز قبل لاہور میں ایک پرائیویٹ سکول میں طالب علم حنین بلال کو بھی اسی طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعث وہ جاں بحق ہوا۔
دوران سماعت شہزاد رائے کے وکیل نے دلائل دیئے کہ ان کے موکل نے تعلیم میں ریفارمز کے لئے فائونڈیشن بنائی۔ بچوں پر تشدد کا خاتمہ سب کے مفاد کا معاملہ ہے۔ پینل کوڈ کی سیکشن 89 میں بچوں پر تشدد کی گنجائش بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی نے اس حوالے سے کوئی بل بھی پاس کیا تھا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات کی وجہ سے قانون سازی نہیں ہو پارہی۔ عدالت عالیہ نے سکولوں میں بچوں پر تشدد پر پابندی عائد کردی۔
ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کوآئین کے آرٹیکل 14 کے تحت بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے، داخلہ، قانون و انصاف، تعلیم و تربیت اور انسانی حقوق کی وزارتوں کے سیکرٹریز اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری 5 مارچ معاملے پر جواب طلب کر لئے۔
عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے درخواست گزار شہزاد رائے نے کہا کہ بچوں کو پیدا ہوتے ہی والدین مارتے ہیں۔ اسکول جاتے ہیں تو اساتذہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ معاشرے میں ایس ایچ او مارتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے تشدد سے صرف تشدد بڑھتا ہے۔
Comments are closed.