ہچکی آنا معمول کی بات ہے اور تقریباً ہرشخص کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا تجربہ ہوتا ہے، اس تحریر کے ذریعے آپ کو ہچکی آنے کی وجوہات سے آگاہ کریں گے جب کہ ماہرین صحت کی اس بارے میں رائے اور کئی برسوں تک ہچکیاں لینے والے انسانوں سے متعلق معلومات بھی تحریر کا حصہ ہیں۔
ہچکی کیوں آتی ہے
انسان کے سینے میں نچلی طرف ایک خاص عضو ہوتا ہے جسے ڈایا فرام کہا جاتا ہے یہ سانس لینے میں مددگار ہوتا ہے، جب ہم سانس لیتے ہیں تو یہ ہوا کو پھیپھڑوں تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔
بعض اوقات جب ہم جلدی جلدی کھانا کھاتے یا پانی پیتے ہیں تو اس کی وجہ سے ڈایا فرام میں کچھ ’’اریٹیشن‘‘ سی پیدا ہوتی ہے اور ہوا تیزی سے گلے کے اندر جاتا ہے۔ جب یہ ہوا ساؤنڈ باکس سے جا کر ٹکراتی ہے تو ووکل کارڈز اچانک بند ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ’’ہک‘‘ کی آواز پیدا ہوتی ہے جسے ہچکی کہا جاتا ہے۔ ہمارے گلے میں ٹشوز کی بنی پرتیں ہوتی ہیں جنہیں ووکل کارڈز کہا جاتا ہے۔
ہچکی کچھ وقت کے بعد خود ہی ختم ہو جاتی ہے لیکن کبھی کبھار اس سے چھٹکارا پانا مشکل ہو جاتا ہے اس دوران پانی پینا، سانس کو تھوڑی دیر کے لئے روکنا، اپنی زبان کو باہر کی سمت کھینچنے سے ہچکی روکنے میں مدد ملتی ہے۔
لیکن بعض اوقات ہچکی، ڈایا فرام ، لبلبے، اور معدے کی کسی بیماری کی علامت کے طور پر بھی ہو سکتی ہے۔اس لئے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر ہچکی زیادہ وقت کے ہو اور ختم نہ ہو رہی ہو ڈاکٹر سے لازماً رابطہ کریں تا کہ کسی بیماری کی صورت میں اس کی بروقت تشخیص اور علاج کیا جا سکے۔
طویل ترین عرصے تک ہچکیاں
ہچکی آنا معمول کی بات ہے اور تقریباً ہر شخص اس تجربے سے گزرتا ہی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لئے یہ تجربہ اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ ان کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔ امریکا سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی شخص چارلس اوس بورن تھے جو 1894 میں پیدا ہوئے۔ چارلس اوس بورن کو تقریباً 68 سال تک لگاتار ہچکیاں آتی رہیں۔
امریکی شہری کو ہچکی کا مسئلہ 1922ء میں شروع ہوا اس کے پس منظر میں کہانی کچھ یوں ہے کہ وہ 1922 میں کسی وزنی جانور کو لے جا رہے تھے کہ اچانک گر پڑے۔ اس وقت و انہیں سوائے ہچکیوں کے کچھ خاض محسوس نہیں ہوا لیکن بعد میں طبی معائنے کے دوران ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ گرنے کے باعث ان کے دماغ میں موجود ایک رگ کو نقصان پہنچا جو اس مسئلے کی وجہ ہے۔
یوں چارلس اوس بورن کو 1922 میں شروع ہونے والی ہچکیوں کا اختتام ان کی موت سے ایک سال قبل یعنی 1990ء میں ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق چارلس نے اپنی پوری زندگی میں 43 کروڑ بار ہچکیاں لیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ برطانوی شہری کرسٹوفر سینڈز کے ساتھ پیش آیا انہیں مسلسل تین سال تک ہچکیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث ان کے کیریئر پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے اس میں انہیں سانس لینے میں مشکل پیش آتی تھی اور سونے میں بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
بالآخر 2009 میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جانے کے باعث امریکہ کے ڈاکٹروں نے ان کے معاملے میں خصوصی دلچسپی لی یوں ان کا تفصیلی معائنہ ہوا اور انہیں بتایا گیا کہ ان کے دماغ میں رسولی ہے جو اس مسئلے کا بنیادی سبب ہے، رسولی کو ہٹایا گیا جس کے برطانوی شہری کی ہچکیاں ختم ہو گئیں۔
سال 2007ء میں امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی جینیفرمی نامی خاتون کو ایک منٹ میں 50 سے زیادہ بار ہچکیوں کا سامنا مسلسل 35 روز تک رہا۔
Comments are closed.