تمباکو کی صنعت اربوں کی ٹیکس چوری میں ملوث

رپورٹ: فیض پراچہ

اسلام آباد:راولپنڈی کے علاقے جھنگی سیداں میں جعلی سگریٹ بنانے کی فیکٹری پر حالیہ ریڈ نے تمباکو کی صنعت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ سپارک نے اس پریشان کن انکشاف کے وسیع تر مضمرات پر ایک پریس ریلیز کے ذریعے روشنی ڈالی۔

ملک عمران احمد، کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ نے کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے صحت عامہ اور معاشی استحکام کی قیمت پر منافع خوری پر مبنی مکروہ حربوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جعلی سگریٹ کی پیداوار اور تقسیم تمباکو کی صنعت کی جانب سے حکومت کو الجھانے اور تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس کم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایک حربہ ہے۔ تمباکو کی صنعت یہ یقینی بنا رہی ہے کہ ٹیکس کم ہو یا نہیں، ان کو فائدہ ہو، اور پاکستانی عوام کو نقصان۔

ملک عمران نے صحت عامہ اور معیشت پر جعلی تمباکو کی مصنوعات کے مضر اثرات پر زور دیا۔ انہوں نے تمباکو کی صنعت کے گمراہ کن طریقوں کو ناکام بنانے اور پاکستان بھر میں عوام کی فلاح و بہبود کے تحفظ کے لیے سخت چوکسی اور نفاذ کے اقدامات کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

سپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے صحت عامہ کی قیمت پر منافع خوری کرنے پر تمباکو کی صنعت کی مذمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جعلی سگریٹ مینوفیکچرنگ کی دریافت نے تمباکو کی صنعت میں غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جامع ریگولیٹری اقدامات اور نفاذ کے طریقہ کار کی فوری ضرورت کی واضح یاد دہانی کا کام کیا۔ ڈاکٹر ڈوگر نے اس بات پر زور دیا کہ اس واقعے کو تمباکو پر ٹیکس کم کرنے کی وکالت کرنے کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔ پاکستان کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ ضروری تھا، جیسا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک نے روشنی ڈالی ہے۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمباکو کی صنعت سے ٹیکس ریونیو اکٹھا کیا جائے اور انہیں ناجائز تجارت کی آڑ میں کوئی رعایت نہ دی جائے۔

Comments are closed.