بیجنگ: بیجنگ سرمائی اولمپکس میں چینی دستے نے سرمائی اولمپکس میں چین کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ برف کے کھیلوں میں نسبتاً کمزور ملک سے لے کر سرمائی اولمپکس کی میزبانی اور سرمائی اولمپکس میں نئے تاریخی ریکارڈز قائم کرنے تک، چین اپنی کہانی سے سب کو بتا رہا ہے کہ اگرچہ شعلہ چھوٹا ہے، لیکن وہ سخت محنت اور جدوجہد جاری رکھے گا اور آسمان میں ستاروں کو روشن کرنے کی منزل پائے گا۔ ہم میں سے ہر وہ شخص جو سخت محنت کررہا ہے اور مسلسل ترقی کررہا ہے، وہ سرمائی اولمپکس کے “چھوٹے شعلے والی مشعل” کا محافظ ہے۔
دھیمی آگ کو دہکنے دو اور مدھم آواز کو سماعتوں سے ٹکرانے دو۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں بچوں کے ایک گروپ نے اپنی ننھی آوازوں میں ایک ساتھ “اولمپک گیت” گایا تھا۔ مجھے حیرانگی ہوئی کہ ان بچوں کی آوازیں تو عام سی ہیں کیونکہ وہ کوئی پیشہ ور گلوکار تو تھے نہیں، مگر پھر بھی اتنے اہم اسٹیج پر وہ کیسے پہنچ گئے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ 44 بچے پہاڑی علاقے سے ہیں، انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی، لیکن اس کے باوجود انتہائی کم وقت میں انہوں نے یونانی زبان کا یہ گیت گنگنانا سیکھ لیا۔میں بچوں کی اس کاوش سے بے حد متاثر ہوئی اور اس تقریب کے منتظمین کو سراہا جنہوں نے ان بچوں کو افتتاحی تقریب کے لیے منتخب کیا۔ افتتاحی تقریب میں موجود یہ بچے اور دھیمی آگ والی مشعل ایک ساتھ مل کر سرمائی اولمپکس کی مساوات پسندی، گرمجوشی اور اشتراکیت کا بنیادی رنگ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ اس معاشرے میں ہم ایک مساوی اور اشتراکی مستقبل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہر بچے کو اس بڑے اسٹیج پر کھڑے ہونے کا موقع مل سکتا ہے جس پر پوری دنیا کی نگاہیں جمی ہوتی ہیں ،یوں یہ بچے اپنی آواز خود بناتے ہیں۔
دھیمی آگ کو دہکنے دو اور ایک گمنام شہر کو بھی شہرت کی منزل پانے دو ۔ سرمائی اولمپکس میں دو مقامات کو عالمی سطح پر نمایاں مقبولیت ملی ہے۔ چانگ جا کھو شہر کا ضلع چھونگ لی ، جہاں سرمائی اولمپک کھیل منعقد ہو رہے ہیں،یہ علاقہ اپنے اعلیٰ معیار کے اسکی میدانوں اور سرمائی اولمپکس کی وجہ سے برفانی کھیلوں کے بے شمار شائقین کو اپنی جانب راغب کر رہا ہے۔کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ چھونگ لی ایک غربت زدہ علاقہ ہوا کرتا تھا۔ سرمائی اولمپکس کی وجہ سے، چھونگ لی کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں بہتری آئی ہے ، سرمائی کھیلوں سے متعلق سیاحت کو بھی بھرپور وسعت ملی ہے اور مقامی لوگوں کا معیار زندگی بہت بہتر ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں چانگ جا کھو شہر اپنی جغرافیائی خصوصیات کی بناء پر صاف شفاف توانائی کی صنعت کو بھی فروغ دے رہا ہے ۔یہاں توانائی کی بچت اور اخراج کو کم کرتے ہوئے، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی تنصیبات اور سبزہ زار ایک انوکھا منظر پیش کرتے ہیں، جو اسے گرمیوں میں بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ چھی تھائی حہ بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے جو لوگوں کی نظروں میں آئی ہے ۔ یہ شمال مشرقی چین کے صوبہ حئی لونگ جیانگ میں واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ شمال مشرقی شہروں کی مانند اگرچہ یہ شہر بھی کئی عشروں سے بتدریج آگے بڑھ رہا ہے مگر اس قدر شہرت نہ پا سکا۔ لیکن اس شہر نے ہمت نہیں ہاری اور شمال مشرق میں سرد موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں میں برف کے کھیل کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا۔ 690,000 آبادی کے حامل اس شہر نے 10 عالمی شارٹ ٹریک اسپیڈ اسکیٹنگ چیمپئنز پیدا کیے ہیں اور اب تک چین کے حاصل کردہ 19 سرمائی اولمپک گولڈ میڈلز میں سے 7 کا تعلق اسی شہر سے ہے۔
سرمائی اولمپکس میں، مزید چھوٹی موٹی تبدیلیاں خوش آئند ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ نہ صرف سرمائی کھیلوں میں عمدہ کارکردگی کے حامل ممالک پر توجہ دے رہے ہیں بلکہ ان ممالک کا بھی گرمجوشی سے استقبال کر رہے ہیں جو اس میدان میں نسبتاً کمزور ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور چند دیگر ممالک سے صرف ایک ،ایک کھلاڑی نے شرکت کی ہے لیکن اس کے باوجود جب یہ کھلاڑی سٹیڈیم میں داخل ہوئے تو دیگر بڑے دستوں کے حامل ممالک کی طرح ان کا بھی پرتپاک استقبال کیا گیا ۔ لوگ نہ صرف چیمپئنز اور گولڈ میڈلز پر توجہ دے رہے ہیں بلکہ محنت کے جذبے کو بھی یکساں اہمیت دیتے ہوئے ایسے تمام کھلاڑیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مردوں کے فگر اسکیٹر جن بویانگ، جو تمغہ جیتنے میں تو ناکام رہے مگر اپنی شاندار اسپورٹس مین شپ کی بدولت اب بھی ہر ایک سے احترام اور تحسین سمیٹ رہے ہیں۔اُن کے حوالے سے انٹرنیٹ پر ایک جملہ وائرل ہوا کہ “جن بویانگ نے جن بویانگ کو شکست دی” ۔ کھیل کے میدانوں سے باہر رضاکاروں، طبی عملے اور یہاں تک کہ میڈیا ورکرز کی جانب سے کیمرہ ورک اور محنت سے کام کرنے کے ہر لمحے کو توجہ حاصل ہے اور ان کی تعریف کی جاتی ہے۔
جیسا کہ حالیہ دنوں چین میں مقبول ایک گیت کے بول ہیں “کون کہتا ہے کہ روشنی میں کھڑا ہونے والا ہی اصل ہیرو ہے”۔ اسپاٹ لائٹ سے باہر، اسٹیج کے نیچے بھی کسی نا کسی نے “مزید تیز، مزید اعلیٰ اور مزید مضبوط” کی کہانی رقم کی ہے ، اور یہ اس نئے دور میں ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ اس بات کی فکر نہ کریں کہ یہ روشنی مدھم ہے اور کسی کی نظر وں میں نہیں آ ئے گی۔ نہ ہی اس سے خوفزدہ ہوں کہ آواز کمزور ہے اور کسی کی سماعتوں تک نہ پہنچ پائے گی ۔یہاں تک کہ ہمیں زیرو سم گیم کھیلنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وسیع و عریض کائنات میں، کرہ ارض محض ایک ہلکا چھوٹا نیلا نقطہ ہے۔ہم میں سے ہر کوئی اس مدھم نیلے نقطے کا محافظ اور انسانی تہذیب کی ” چھوٹی مشعل” کو آگے بڑھانے والا ہے۔
Comments are closed.