برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ‘یہ خیال کہ ہم کسی بھی طرح سے چینی حکومت کے زیر اثر ہیں، سراسر غلط ہے۔
یورپ، مشرق وسطی اور افریقہ کے لیے ٹِک ٹاک کے عوامی پالیسی کے سربراہ تھیو برٹرام کا کہنا ہے کہ وہ چین کی جانب سے ڈیٹا کے حوالے سے کسی بھی درخواست کو مسترد کردیں گے۔
ایپلی کیشن بنانے والی کمپنی بائٹ ڈانس کے مالک جو ویسے تو کیمین جزائر سے تعلق رکھتے ہیں تاہم بیجنگ میں مقیم ہیں، انہوں نے برطانیہ کی حکومت سے لندن میں ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔
تھیو برٹرام نے بی بی سی کے پروگرام میں بتایا کہ ٹِک ٹاک نے اپنے بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر کو کہاں رکھنا ہے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم انہوں نے کہا کہ ہم برطانیہ میں مزید ترقی کے لیے پرعزم ہیں
انہوں نے کہا کہ اگر چینی حکومت کی طرف سے ٹِک ٹاک کے حوالے سے رجوع کیا گیا تو ‘ہم ڈیٹا کے لیے کسی بھی درخواست کا یقینی طور پر انکار کریں گے۔
امریکا ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ کمپنی چین سے الگ ہوجاتی ہے اور امریکی کمپنی بن جاتی ہے تب ہی اسے چلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
اامریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جو رواں ہفتے برطانیہ کا دورہ کررہے ہیں، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ امریکا میں ٹِک ٹاک کے صارفین کو ‘چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں ان کا ڈیٹا ملنے کا خطرہ ہے۔
محکمہ برائے بین الاقوامی تجارت کے ترجمان نے کہا کہ بائٹ ڈانس کا ان کے عالمی ہیڈ کوارٹر کے بارے میں فیصلہ کمپنی کے لیے ایک تجارتی فیصلہ ہےعلاوہ ازیں تھیو برٹرام نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ ٹک ٹاک ایپ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے نرم مزاج ہے۔
Comments are closed.