بارسلونا۔خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر بارسلونا کی سڑکوں پر 6 ہزار سے زائد افراد نےصنفی تشدد کے خلاف مظاہرہ کیا۔مظاہرین نے صنفی بنیاد پر تشدد کے متاثرین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔احتجاج میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمات، مختلف اداروں کے افراد کے علاووہ مردوخواتین بچوں سمیت شریک ہوئے۔
مظاہرین کی جانب سے شدید نعرہ بازی کی گئی، حقوق نسواں کی جدوجہد زندہ باد، خواتین نے بینرز اٹھا رکھے تھے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ مظاہرین کی جانب سے مردوں کو خصوصی طور پر حقوق نسواں کی جدوجہد میں شامل ہونے کی تاکید کی گئی۔احتجاج کے موقع پر رنگوں کی کوئی کمی نہیں تھی تاہم سب سے نمایاں رنگ جامنی تھا۔ خواتین گروپ بٹوکاڈا ڈھول کی تال پر رقص کررہاتھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق احتجاج ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کاتالونیا میں صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ احتجاجی ریلی میں پاکستان سے آنے والی ہیومن رائٹس ایکٹیویسٹ ثمرا اطہر نے پاکستانی خواتین کی نمائندگی کی۔
کاتالان پولیس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال 2023 کے پہلے دس مہینوں میں کاتالونیا میں چودہ خواتین کو قتل کیا گیا، جو پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں چار زیادہ ہیں۔سال کے پہلے دس مہینوں میں گھریلو تشدد سے متعلق کل چودہ ہزار ایک سو سینتیس 14,137 شکایات ریکارڈ کی گئیں جو 2022 کی اسی مدت کے مقابلے میں 9.6% زیادہ ہے۔ پولیس نے اس عرصے کے دوران 6,056 مردوں کو گرفتار کیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 13.2 فیصد زیادہ ہے
اس سال اب تک 13,278 خواتین نے اپنے موجودہ یا سابقہ ساتھی کی طرف سے صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے کی شکایت درج کروائی۔ 46 سے 50 سال کی عمر کی خواتین کی شکایات کی تعداد میں 19.7 فیصد اضافہ ہوا ہے 21 سے 50 سال عمر کے درمیان متاثرین کی تعداد 70 فیصد ہیں۔
صنفی بنیاد پر تشدد کی شکایات کم آمدنی والے علاقوں میں زیادہ ہیں۔کم آمدنی والی کاتالونیا کی میونسپلٹیوں میں صنفی بنیاد پر تشدد کی شکایات کی شرح زیادہ اوسط آمدنی والے افراد سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔
جنوری 2022 اور اکتوبر 2023 کے درمیان کاتالان پولیس کے ڈیٹا کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی گئی ہے۔کاتالونیا کے کالج آف کرمینالوجی کی ترجمان ہیلینا مولیرو کا کہنا ہے کہ امیر علاقوں میں کیسز کم نہیں ہیں۔ بلکہ معاملات زیادہ “نفسیاتی” ہیں اور کم رپورٹ کیے جاتے ہیں۔
Comments are closed.