خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں 8 ممالک کے 24 ملین لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے،کوروناکے بعد 17 ممالک کے40 ملین سے زائد افرادغذائی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔
گلوبل نیٹ ورک اگینسٹ فوڈ کرائسسس کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے مطابق غذائی بحران کو مزید بدتر بنانے والے تین عوامل، تصادم و جنگیں، کووڈ -19 سے متعلقہ معاشی عوامل اور ماحولیاتی تبدیلی کو شامل کیا گیا۔یورپین یونین، فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن اور اقوم متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اشتراک سے چلنے والےادارے ’گلوبل نیٹ ورک اگینسٹ فوڈ کرائسسس‘ کی رپورٹ کے مطابق ہیٹی سے شام تک 55 ممالک کے 155 ملین افراد جن کا انحصارزیادہ تر فلاحی امداد پر ہیں، ان کی بطور’ بحران‘ درجہ بندی کی گئی، جس کا مطلب ہے کہ انہیں غذا کی فوری ضرورت ہے، اور ان افراد کی تعداد میں 2019 سے اب تک 20 ملین افراد کا اضافہ ہوچکاہے۔
فوڈ اینڈ ایگرکلچر آرگنائزیشن کی سینئر افسر برائے ہنگامی امداد اور بحالی اوراس مطالعے کی شریک مصنف لیوکا رسو کا کہنا ہے کہ ’ کورونا اور جنگ یہ ایک زہریلا امتزاج ہے‘ 155 ملین لوگ بحران میں ہیں اور ان میں سے 28 ملین قحط کے قریب ہیں اور آئندہ ہفتوں میں صورت حال مزید بدتر ہوسکتی ہے۔انہوں نے بین القوامی برادری سے بیرونی امداد پر 97 فیصد تک انحصار کرنے والے ممالک کی زیادہ سے زیادہ مدد کر نے کی درخواست کی۔ غذائی عدم تحفظ کا شکار زیادہ تر ممالک ماضی یا حال ہی میں جنگوں یا تصادم کا نشانہ بنے ہیں جن میں جمہوریہ کانگو، افغانستان، یمن، شام اور سوڈان جیسے ملک شامل ہیں۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ بھوک اور جنگ باہمی طور پر ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ اور ہمیں لوگوں کو قحط سے بچانے کے لیے بھوک اور جنگ سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حل نکالنا ہوگا، جنگیں اور تصادم لوگوں کو اپنے گھروں، زمین اور ملازمتوں کو چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں۔ جس سے زراعت اور تجارت متاثر ہوتی ہے، پانی، بجلی جیسے اہم ذرائع میں کمی ہوتی ہے اور یہی چیز بھوک اور قحط کا سبب بنتی ہے۔ صرف شام میں ہی جنگ کی وجہ سے مجموعی آبادی کا 60 فیصد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
Comments are closed.