ایران میں مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش

 برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ‘غیر موزوں لباس’ کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران وہ کومہ میں چلی گئی تھیں جہاں وہ انتقال کر گئیں۔حکام نے کہا کہ وہ 22 سالہ خاتون کی موت کی وجوہات کی تحقیقات شروع کریں گے، مہسا امینی کی موت نے عوام میں شدید غم و غصے اور ایران میں 2019 کے بعد بدترین مظاہروں کو جنم دیا ہے۔

شمال مشرقی علاقے میں مظاہرین نے ایک پولیس اسٹیشن کے قریب مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے نعرے لگائے کہ ‘ہم مر جائیں گے، ہم مر جائیں گے لیکن ہم ایران کو واپس لائیں گے’ کے نعرے لگائے۔ بعد ازاں اس پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی۔مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان سے بدامنی پھیلتے ہی دارالحکومت تہران میں ایک اور پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا۔

حالیہ احتجاجی لہر کے باعث ایران کے حکمرانوں کو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے 2019 کے احتجاج جیسی صورتحال کا خدشہ ہے جو اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے خونریز احتجاج تھا، خبر رساں ادارے رائٹرز نے 1500 افراد کی ہلاکت رپورٹ کی تھی۔مظاہرے زیادہ تر ایران کے کرد آبادی والے شمال مغربی علاقوں میں جاری ہیں لیکن اب یہ سلسلہ دارالحکومت اور ملک بھر کے کم از کم 50 شہروں اور قصبوں تک پھیل چکا ہے جب کہ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے

واضع رہے کہ مہسا امینی کی موت اخلاقی پولیس کی حراست میں کوما میں جانے کے بعد ہوئی، یہ پولیس ایران میں سخت قوانین نافذ کرتی ہے جن کے تحت خواتین کو اپنے بال ڈھانپنے اور عوامی مقامات پر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا لازم ہوتا ہے۔مہسا امینی کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو صحت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا تاہم پولیس حراست کے دوران ان کی ٹانگوں پر زخم آئے، انہوں نے پولیس کو اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

Comments are closed.