سپین۔بوکس کی حجاب اور اسلامی لباس پر پابندی کی مہم، پی پی کو شامل کرنے کی کوشش

اسپین میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت بوکس نے ملک گیر سطح پر ایک نئی سیاسی مہم شروع کر دی ہے، جس کا ہدف حجاب اور دیگر اسلامی لباس پر پابندی ہے۔ پارٹی نے یہ تجویز نہ صرف قومی پارلیمان بلکہ ان تمام علاقائی اسمبلیوں میں بھی پیش کی ہے جہاں اسے نمائندگی حاصل ہے، جن میں اندلس، آراگون، ایکستریمیدورا، بیلیئرز اور کاتالونیا شامل ہیں۔

یہ مہم مورسیا کے قصبے خمیلا سے شروع ہوئی، جہاں بکس نے پے پے کے تعاون سے ایک قرارداد منظور کرائی۔ ابتدائی طور پر بوکس کا مطالبہ تھا کہ عوامی مقامات اور بلدیاتی سہولیات میں اسلامی مذہبی تقریبات اور لباس پر مکمل پابندی ہو، تاہم پی پی کی ترمیم کے بعد یہ پابندی صرف عوامی جگہوں پر اسلامی تقریبات پر پابندی تک محدود کر دی گئی۔ اس قرارداد کی مخالفت کیتھولک چرچ نے بھی کی اور اسے انسانی حقوق کے منافی قرار دیا۔

بوکس کی تجویز میں حجاب (سر اور گردن ڈھانپنے والا اسکارف) کو نقاب اور برقع کے ساتھ یکساں قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہ تینوں لباس مختلف ثقافتی اور مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔ حجاب چہرہ کھلا رکھتا ہے اور اسپین کے دیہی علاقوں میں خواتین کے روایتی اسکارف سے مشابہ ہے، جبکہ نقاب اور برقع میں چہرہ چھپ جاتا ہے۔ کئی یورپی ممالک جیسے فرانس، بیلجیئم اور نیدرلینڈز میں صرف چہرہ ڈھانپنے والے برقع یا نقاب پر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پابندی ہے، مگر حجاب پر نہیں۔

بوکس اس پابندی کو سکیورٹی یا غیر جانبدارانہ تعلیم کے اصولوں سے نہیں جوڑتا، بلکہ اس کا موقف ہے کہ اسلام اسپین کی قومی شناخت اور روایات سے “ناموافق” ہے۔ پارٹی سربراہ سانتیاگو آباسکل لنے کہا اسلام بھی اسپین کو تعریف کرتا ہے، مگر اُلٹے معنوں میں۔ اسپین اسلام کے خلاف کھڑے ہو کر بنا ہے۔

کاتالونیا کی پارلیمان میں یہ تجویز جولائی کے آخر میں پیش ہوئی مگر مسترد ہو گئی۔ پی پی نے اس پر ووٹ دینے سے گریز کیا۔ پی پی کے رہنما البرتو فرنانڈیز نے کہا کہ وہ صرف برقع یا چہرہ ڈھانپنے والے نقاب پر پابندی کی حمایت کر سکتے تھے، مگر “کسی بھی اسلامی لباس” پر پابندی کا مطالبہ غیر واضح اور غیر منطقی ہے۔

طوکس اکثر مسلمانوں کو مہاجر قرار دیتا ہے، چاہے وہ اسپین میں پیدا ہوئے ہوں۔ حال ہی میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل ایگناسئو گاریگا نے دعویٰ کیا کہ 2024 میں کاتالونیا میں پیدا ہونے والے بچوں میں “محمد” سب سے عام نام تھا، حالانکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے عام نام “مارتی” تھا اور “محمد” پہلے 25 میں بھی شامل نہیں۔

اسپین میں اسلام کو 1989 سے “اہم مذہب” کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور 1992 کے سرکاری معاہدے میں اس کے اسپین کی شناخت کی تشکیل میں تاریخی کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ملک میں تقریباً 24 لاکھ مسلمان رہتے ہیں جن میں سے نصف سے زائد اسپینی شہری ہیں۔

یہ خبر ایل پائیس اخبار کی خبر کا ترجمعہ ہے۔

Leave A Reply