ایک اور قدآور مسلم رہنما مختارانصاری بھارتی جیل میں قتل

تحریر: محمد شہباز

بڑے قد کاٹھ کے مالک ایک اور بھارتی مسلم رہنما اور سابق ایم ایل اے مختار انصاری بھارتی ریاست اتر پردیش کی باندہ جیل میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔جناب مختار انصاری کی جیل میں انتقال کے نتیجے میں ریاست اترپردیش کے مسلمان بالخصوص اور پورے بھارت کے مسلمان بالعموم ایک توانا آواز سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو گئے ہیں ۔بھارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان سیاسی طور پر مفلوج ہو رہے ہیں ۔ آر ایس  ایس  کی حمایت یافتہ ہندوتوا مودی انتہاپسند حکومت چن چن کر بھارتی مسلمانوں کی سیاسی آوازوں کو خاموش کرا رہی ہے ۔ مختار انصاری کی شہادت اترپردیش کے مسلمانوں کیلئے کسی سانحہ جانکاہ سے کم نہیں ہے۔مختار انصاری گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی جیلوں میں بند تھے اور 29 مارچ کو موت سے چند دن قبل انہوں نے عدالت میں پیشی کے موقع پر انکشاف کیا تھا کہ انہیں جیل میں زہر دیا گیا اور پھر29 مارچ کی صبح ان کی موت کی خبریں منظرعام پر آئیں۔

مختار انصاری کی جیل میں موت پہلی اور آخری نہیں ہوگی،نہ جانے ابھی بھارتی مسلمانوں کو کیا کیا سہنا اور دیکھنا پڑے گا۔ابھی تو یہ ابتدا ہے ،انتہا کسقدر خوفناک ہوگی ،حالات و قرآئن سے واضح اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی نسلی تطہیر کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ اپنے اصل کی طرف بڑھنے لگا ہے اور اس منصوبے کی خالق BJPاور اس جماعت کے سرخیل نریندرا مودی اور اس کے حواری ہیں،جن میں امیت شاہ،راجناتھ سنگھ اور اتر پریش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ سرفہرست ہیں۔

یہ یوگی ادتیہ ناتھ ہی ہیں جس نے مختار انصاری کو نہ صرف گرفتار کرکے جیل میں بند کیا بلکہ ان کے اور ان کے بھائیوں کی تمام جائیداد و املاک کو بلڈوزر سے نیست و نابود کیا ۔مشرقی اتر پردیش کے ماو علاقے سے پانچ بارمنتخب ہونے والے سابق ایم ایل اے مختار انصاری پہلے ہی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے نشانے پر تھے، جس نے 2017 میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنی بے لگام پولیس اور انتظامیہ کی طاقت کو ان کے، ان کے خاندان اور حامیوں کے خلاف بے دردی سے استعمال کیا۔ یوگی حکومت جب بھی کسی مسلم رہنما کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہے تو اس پر ایسے بھونڈے الزامات عائد کرتی ہے کہ اپنے بھی دانتوں میں انگلیاں دیتے ہیں۔یوگی نے حسب عادت مختار انصاری کو ایک “گینگسٹر” قرار دیا، اس کے بعد ان کی، ان کے بیٹوں، ان کے بھائیوں افضل انصاری ، صبغت اللہ انصاری اور دیگر رشتہ داروں کے خلاف متعدد جھوٹے مقدمات درج کروائے تھے۔یوگی حکومت نے انصاری خاندان کی کروڑوں کی جائیداد ضبط کر کے منہدم بھی کر دی ۔

جیل حکام نے دعوی کیا کہ63 سالہ مختار انصاری 28 مارچ کو اتر پردیش کی باندہ جیل سے ہسپتال لے جانے کے بعد انتقال کر گئے۔سرکاری ڈاکٹروں نے چونکہ یوگی حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا تھی ،انہوں نے کہا کہ مختار انصاری پہلے ہی بے ہوش ہو چکے تھے۔حالانکہ حالات و قرآئن نے یوگی حکومت اور جیل انتظامیہ کے دعوئوں کی قلعی کھول دی کہ مختار انصاری ہسپتال میں نہیں بلکہ جیل کے اندر ہی اپنے خالق حقیقی سے مل چکے تھے،انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کرنا ایک حراستی قتل پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا۔خود ان کی موت سے دو دن قبل ان کے بھائی افضل انصاری، جو سابق بھارتی ممبر پارلیمنٹ اور 2024 کے انتخابات میں غازی پور سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار ہیں، نے کھلے عام کہا کہ ان کے بھائی کو قتل کرنے کی سازش کے تحت جیل میں زہر دیا گیاہے۔ اور تو اور دسمبر 2023 میں مختار انصاری کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کرکے یہ شکوہ کیا تھا کہ اتر پردیش حکومت ان کے والد کو باندہ جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ مختار انصاری کے حراستی قتل نے ان کے بیٹے اور خاندان کے دوسرے افراد کے خدشات کو درست ثابت کیا ہے۔ ہسپتال کے ایک میڈیکل بلیٹن میں صرف یہ بتایا گیاکہ مختار انصاری اپنے سیل میں بے ہوش ہو چکے تھے اور شام کے وقت الٹی کے علاوہ ہوش کھونے کے بعد انہیں رانی درگاوتی میڈیکل کالج ہسپتال لے جایا گیا۔ انہیں ایمرجنسی وارڈ میں رکھا گیا جہاں دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت واقع ہوگئی۔اس سے قبل 26مارچ کو ان کے بڑے بھائی افضل انصاری نے کہا تھا کہ ان کے بھائی کو زہریلی چیز کھلائی گئی تھی۔ افضل انصاری نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ جیل میں ان کے بھائی کو قتل کرنے کی سازش کی گئی ہے اور 29مارچ کو پھر ایسا ہی ہوا۔جن خدشات کا اظہار انصاری خاندان نے کیا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئے۔افضل انصاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے بھائی کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی تھی اور وہ اپنے کیس کی ورچوئل سماعت میں بھی شرکت کرنے سے قاصر رہے۔مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے گزشتہ برس دسمبر میں بھارتی سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ان کے والد کو اتر پردیش کی باندہ جیل سے باہر کی کسی جیل منتقل کیا جائے۔عمر انصاری نے کہا ہے کہ ان کے والد کو 19 مارچ کو رات کے کھانے میں زہر دیا گیا تھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ موت سے دو روز قبل وہ اپنے والد سے ملنے گئے تھے لیکن انہیں ملنے نہیں دیا گیا۔ عمر انصاری اسی پر نہیں رکے بلکہ انہوں نے اپنی درخواست میں سابق بھارتی ممبر پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کے دن دیہاڑے سفاکانہ قتل کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اپنے والد کی خیریت پر تشویش کا اظہار کیا تھا جب ان دونوں بھائیوں کو پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم معمول کے میڈیکل چیک اپ کیلئے لے جا رہی تھی۔ گزشتہ برس 15 اپریل کو پریاگ راج میں احمد برادران کو صحافیوں کے سامنے قتل کیا گیا اور فوٹیج ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی گئی۔قاتلوں نے نہ صرف دونوں بھائیوں کو قتل کرنے کے موقع پر جئے شری رام کے نعرے لگائے بلکہ وہ بڑی آسانی کیساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور کوئی کاروائی کرنے سے گریز کیا۔ظاہر ہے جب قاتل اور پولیس کا آپس میں گٹھ جوڑ ہو اور مقتول مسلمان ہوں ،تو بھارتی پولیس کیونکر کاروائی کرتی ۔

مختار انصاری کے حراستی قتل پر ان کے اہلخانہ اور حزب اختلاف کے رہنماوں نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ریاست بہار کے سابق وزیر اعلی نے ایک بیان میں کہا کہ مختار انصاری نے کچھ دن قبل شکایت کی تھی کہ انہیں جیل میں خوراک کے ساتھ زہر دیاجا رہا ہے لیکن انکی بات کوسنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔بھارت کے آئینی اداروں کو ایسے عجیب و غریب واقعات کا از خود نوٹس لینا چاہئے۔آزاد سماج وادی پارٹی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ مختار انصاری نے اپنے قتل کا خدشہ پہلے ہی ظاہر کیا تھالہذا وہ الہ آباد ہائی کورٹ سے ان کی موت کی بھارتی ایجنسی CBI سے تحقیقات کروانے کا حکم جاری کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔وہیں بھارتی کانگریس رہنما پپو یادو نے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مختار انصاری کی حراستی موت کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا،تاکہ اس واقع کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مختار انصاری کئی دنوں سے خود الزام لگا رہے تھے کہ انہیں سلو پوائزن کیا جا رہا ہے ۔مختار انصاری ہوں ، احمد برادراں کا بہیمانہ قتل یا بھارتی مسلمانوں پر ان کیلئے زمین تنگ کرنے کے آئے روز رونما ہونے والے واقعات ہوں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے،جنہوں نے برصغیر کی تقسیم کے موقع پر بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے فیصلے پر بے ساختہ کہا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کو اس فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔انہیں بار بار بھارت سے وفاداری ثابت کرنے کیلئے اپنا خون بھی بہانا پڑے گا،لیکن ہندو ئوں کی ذہینت انہیں پھر بھی قبول اور تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔کوئی قائد کی قبر پر جاکر انہیں بتائے کہ مختار انصاری کی حراستی موت،احمد برادراں کا ٹی وی کیمروں کے سامنے دن دیہاڑے قتل اور شہریت ترمیمی بل کے نام پر مسلمانوں کو دیوار کیساتھ لگانے کے حالات و واقعات نے ان کے قول کو درست ثابت کیا ہے۔یقینا ایک دور اندیش رہنما ہی ایسی بات کرسکتا ہے۔

Comments are closed.