آہ انجنیئر خالہ صاحب بھی داغ مفارقت دیکر اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ان کا نام انیس سو نوے کے اوائل میں اس وقت سنا جب ان کے فرزند میر حفیظ اللہ اور وڈون سے آئے ہوئے دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی، پھر ان سے دوبدو بھی کئی بار شرف ملاقات ہوئی ۔میں نے انہیں ایک ہمہ گیر شخصیت کا مالک پایا۔وہ ہمہ تن متحرک اور نڈر تھے۔وہ شروع سے تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے۔مگر موجودہ تحریک ازادی میں انہیں وہ قرض بھی چکانا پڑا جو ان پر واجب بھی نہ تھا۔سب سے پہلے ان کے آشیانے کو اڑادیا گیا۔
سرینگر میں ان کے کاروبار کو قبضے میں لیا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا ،ان کے چھوٹے لخت جگر نجیب اللہ کو گھر کے صحن میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا،ظالموں نے ظلم و بربریت کی تمام حدیں پھلانگ کر بچے کی میت بھی اٹھانے نہیں دی اور پوری رات معصوم لخت جگر کا لاشہ خون میں لت پت باہر پڑا رہا۔پھر ان کے بڑے لخت جگر میر حفیظ اللہ ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہوئے اور وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔میر حفیظ اللہ شرم و حیا اور شرافت کے پیکر تھے۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور بے ضرر انسان تھے۔خود خالہ صاحب کو شدید مشکلات و مصائب سے دوچار ہونا پڑا،انہیں کئی بار عقوبت خانوں کی زینت بننا پڑا،جہاں ان پر ناقابل بیاں مظالم ڈھائے گئے،کاروبار سے محرومی،دو جوان سال بیٹوں کی یکے بعد دیگرے جدائی اور خود پر ڈھائے جانے والے مظالم سے ان کا چہرہ کبھی متغیر نہیں ہوا،بلکہ انہوں نے ہمیشہ ان تمام مصائب و آلام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ان کے چہرے پر کبھی مایوسی قریب سے ہوکر بھی نہیں گزری۔ بلکہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ان تمام مشکلات،مصائب اور ازمائشوں کا مقابلہ کیا۔تحریک ازادی کے اغاز سے پہلے لاکھوں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے خالہ صاحب وقتی طور پر تنگدست بھی ہوئے،مگر انہوں نے اپنی دینی حمیت اور غیرت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔
پیشے سے انجنیئر خالہ صاحب علم کا ایک سمندر تھے۔وہ جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتے تھے،تو سنے والے حیرت زدہ رہ جاتے۔انہیں اگر انسا ئیکلو پیڈیا بھی کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ دنیا بھر کی تمام تحریکوں باالخصوص اسلامی تحاریک کے انتظامی ڈھانچوں ،ان کی افرادی قوت و صلاحیت اور اجتماعی دینی حس سے متعلق بھرپور واقفیت رکھتے تھے۔وہ اخوان المسلمون کے کام کاج اور ان کی دعوتی پروگرام سے بے حد متاثر تھے۔وہ دنیا کا بیانیہ بدلنے اور اسلام کا نظام حیات پر مبنی بیانیہ کی ترویج اور اس سے پوری دنیا کیلئے قابل عمل بنانے والے سید ابو الااعلی مودودی کے بڑے شیدائی تھے۔انجنیئر صاحب علم و ادب سے بڑا گہرا شوق رکھتے تھے۔انہوں نے ضلع بڈگام میں باالعموم اور اپنے آبائی گاوں وڈون میں باالخصوص جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چلنے والے سکول کو اپنی شبانہ محنت اور کاوشوں سے چار چاند لگا دیئے۔یہ انہی کی محنت کا شاخسانہ ہے کہ وڈون کے نجی شعبے کے تحت چلنے والے سکول سے درجنوں ڈاکٹرز،انجنیئرز اور پائلٹ تک نکل کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔انہیں اس سکول کا چیئرمین بھی بنایا گیا،جس کی ذمہ داری وہ اس دنیا سے چلے جانے تک نبھاتے رہے۔ان کا پورا خاندان علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ان کے خاندان میں متعدد ڈاکٹر،انجنیئر،اساتذہ،وکلاء اور دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے افراد موجود ہیں۔
عید الفطر سے چند قبل ان کی بیماری کی اطلاع سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے جاننے اور چاہنے والوں کو کردی گئی۔وہ کورونا میں مبتلا ہوچکے تھے۔حالانکہ وہ ویکسین بھی لگوا چکے تھے۔مگر اللہ کو یہی منظور تھا،کہ 19 مئی بروز بدھ 2021 کی علی الصبح خالہ صاحب نے زندگی کی اخری سانس لی۔انا اللہ و انا الیہ راجعون۔اللہ تعالی ان کی آخری منازل آسان اور جنت میں اعلی و ارفع مقام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان، دوست و احباب اور چاہنے والوں کو یہ جدائی برداشت کرنے کا حوصلہ ،صبر اور ہمت عطا کریں۔ان کی اہلیہ محترمہ اور ان کے بچوں کے ساتھ تعزیت،یکجہتی اور ہمدردی کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔
خالہ صاحب اپنے پیچھے ہزاروں خالہ صاحب چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔وہ بظاہر ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں ۔مگر وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ان کی رحلت گو کہ بہت بڑا نقصان ہے،لیکن ان کے وابستگان ان کے مشن کو جاری اور مشعل کو بھجنے نہیں دیں گے۔یہی انہیں بہترین خراج عقیدت ہوگا۔کہ انہوں نے جو شمع جلائی ہے،وہ کسی صورت بھجنے نہ پائے۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
Comments are closed.