5 اگست 2019 کے بعدمقبوضہ کشمیرمیں صورتحال ابتر ہوگئی،انسانی حقوق گروپ

بھارت کے وفاقی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ مودی سرکار کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے تقریباً ایک سال بعد وادی کشمیر میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال مزیدابتر ہوگئی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ”جموں وکشمیر میں انسانی حقوق پر لاک ڈاون کے اثرات:اگست 2019 سے جولائی 2020 تک“ کے عنوان سے فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر کی طرف سے رپورٹ جاری کی گئی جس میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، میڈیا پر پابندی ، مواصلات کی ناکہ بندی ، گرفتاریوں اور نظربندیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیاہے۔

رپوٹ میں کہاگیا ہے کہ حکومت کی طرف سے انسداد شورش کو انسانی تحفظ پر ترجیح دینے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جن میں حبس بےجا، غیر قانونی نظربندی ، بچوں کی گرفتاری اور نظربندی ،ضمانت اور منصفانہ ٹرائل سے محرومی اور پبلک سیفٹی ایکٹ اور یواے پی اے جیسے کالے قوانین کا غلط استعمال شامل ہیں۔

انسانی حقوق گروپ نے قرار دیا ہے کہ 11 ماہ کے لاک ڈاون سے جس میں بندشیں ، ناکہ بندیاں، چیک پوئنٹس، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی معطلی شامل ہے، عوام کی صحت بے حد متاثر ہوئی ہے اور یہ جموں و کشمیر کے عوام میں صدمے اور تناو کا سبب بنا ہے جو بھارت اور جموں و کشمیر کے آئین کے تحت صحت کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے لاک ڈاون ، گرفتاریوں اور نظربندیوں، میڈیا اور 4 جی موبائل انٹرنیٹ سروس پر پابندیوں کی وجہ سے مشکلات اور تکالیف میں اضافہ اور نوجوانوں میں غم وغصہ بڑھا ہے۔ تناﺅ سے پاک ماحول کے بچوں کے حقوق کو من مانی طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ تعلیم پر اثر خاص طور پر شدید رہا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں 2019 اور 2020 کے درمیان بمشکل 100 دن کام ہوسکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ اور جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے نیا ڈومیسائل قانون متعارف کیا گیا اور جموں وکشمیر کے مستقل رہائشیوں کے لئے روزگار کے تحفظ کو ختم کردیا گیا۔مقامی میڈیا کو بدترین شکار قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں کیا گیا ہے اور ان کے خلاف یواے پی اے جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔

Comments are closed.