مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، نارویجن سابق وزیراعظم
مسئلہ کشمیراجاگرکرنے کےلیے یواین سیکرٹری جنرل کواپیل بھیجیں گے:جل مگنے بونڈی وک،بھارت اپنے یکطرفہ اورغیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرے اورانہیں واپس لے، مسعود خان،مشاہد حسین سید و دیگر کا ویبینار سے خطاب
ناروے کے سابق وزیراعظم کے جل مگنے بونڈی وک نے مسئلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کےلیے تیار ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے زیراہتمام یوم استحصال کشمیر کے موقع پر منعقدہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ویبینار میں سفیر پاکستان مسعود خان سمیت۔سینیٹرمشاہد حسین سید۔ہائوس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر برطانیہ کے ایم پی افضل خان۔شمیم شال۔لارڈ واجد خان اورکشمیری امریکن رضوان قادر بھی شامل تھے۔
اپنے خطاب کے دوران ناروے کے سابق وزیراعظم کی جل مگنے بونڈی وک نے جموں وکشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے 2019 میں اپنی ثالثی کی کوششوں کا ذکر کیا۔ناروے کے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے انہوں نے بھارت سمیت سری نگر، مظفر آباد اور اسلام آباد کا دورہ بھی کیا۔
ناروے کے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کے لئیے اپیل بھی بھیجیں گے۔وقت آگیا ہے کہ ایسی سیاسی کوششیں شروع کی جائیں۔جو جنگ بندی اور امن کے لیے راہ ہموار کر سکیں۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہئے۔
پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو ہونے والی پیشرفت کشمیریوں کی قسمت اور جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔سفیر پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت اپنے یکطرفہ اورغیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرے۔انہیں واپس لے۔
مسعود خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے۔سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے۔اگر مسئلہ کشمیر فوری حل نہ ہوا تو یہ تنازعہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگا۔
سینیٹر مشاہد حسین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 5 اگست 2019 سے اب تک 15000 سیاسی قیدی بھارت کی قید میں ہیں۔جبکہ معیشت کو 5.3 ارب ڈالر کے نقصان ہوا اور پانچ لاکھ ملازمتیں ختم ہوئیں۔مقبوضہ کشمیر میں 40 لاکھ بیرونی افراد کو ڈومیسائل دیا گیا ہے۔ووٹر لسٹ میں 12 لاکھ افراد کا نام شامل کیا گیا ہے۔
برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں ڈپٹی لیڈر افضل خان نے اپنے کلمات میں کہا کہ اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک۔نفرت انگیز تقریربھارت میں معمول بن چکی۔اسے حکومتی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔
کشمیری رہنما شمیم شال اورکشمیری امریکن رہنما رضوان قادر نے بھی اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
Comments are closed.